غزہ شہر کے شمالی حصے میں تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے پر لوگ روزہ افطار کرنے کے لئے جمع ہیں۔ (شِنہوا)
غزہ (شِنہوا) 45 سالہ تعمیراتی کارکن اور 5 بچوں کے باپ عبداللہ الاشقار خالی شیلف کے سامنے کھڑے ہیں جن پر صرف قیمتوں کے تیز تر اضافے کے نشان موجود ہیں۔ الاشقار کے لیے رمضان کا مقدس مہینہ خوشی کا موسم نہیں رہا بلکہ یہ مایوسی کا ایک دور بن چکا ہے۔
الاشقار نے کہا کہ رمضان ہمارے لیے خوشی کا باعث ہوتا تھا ۔ ہم سب ایک ساتھ میز کے گرد جمع ہوتے تھے،مل کر روزہ افطار کرتے اور تازہ روٹی کی خوشبو سے پورا گھر مہک جاتا۔
اسرائیلی حکام نے مارچ کے آغاز میں حماس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے پہلے مرحلے کے خاتمے کا حوالہ دیتے ہوئے غزہ کے لیے انسانی امداد کو روک دیا اور کیرم شالوم سرحدی گزرگاہ کو مکمل طور پر بند کر دیا جو خوراک، ادویات اور ایندھن کی ترسیل کے لیے غزہ کا بنیادی راستہ ہے۔
یہ ناکہ بندی غزہ کے20 لاکھ سے زائد باشندوں کے لیے رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی کی گئی، یہ ایک ایسا وقت ہوتا ہے جسے روایتی طور پر اجتماعی خوشی اور روحانی تجدید کا دور سمجھا جاتا ہے۔ اس کی بجائے اب متعدد خاندان اس مقدس مہینے کا سامنا خالی الماریوں اور کم ہوتی ہوئی امیدوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔
الاشقار نے کہا کہ میرے بچے روزانہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آج ہم کیا کھائیں گے؟ اور میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔
تنازعے سے قبل اس کی تعمیراتی کام سے آمدنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی تھی۔اب سپلائی چینز کے منقطع ہونے کے ساتھ ضروری اشیاء بھی ناقابل حصول ہو گئی ہیں۔
