جنوب مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے لئے اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (یو این او ڈی سی) کے قائم مقام علاقائی نمائندے بینی ڈکٹ ہوف مین تھائی لینڈ کے شہر بینکاک میں شِنہوا کوخصوصی انٹرویو دیتے ہوئے-(شِنہوا)
بینکاک(شِنہوا)اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ ٹیلی کام فراڈ اور اس سے متعلقہ جرائم کی جدید اور بین الاقوامی نوعیت سے جنوب مشرقی ایشیا کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے مربوط بین الاقوامی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں چین اور خطے کے ممالک کے درمیان حالیہ تعاون "حوصلہ افزا” ہے اور اس میں اضافہ ہوا ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے لئے اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کے قائم مقام علاقائی نمائندے بینی ڈکٹ ہوف مین نے شِنہوا کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ ٹیلی کام فراڈ متاثرین کی تعداد، جغرافیائی رسائی اور مالی نقصانات کے لحاظ سے تیزی سے پھیلا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے کا اندازہ ہے کہ مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا میں اس طرح کے دھوکوں سے سالانہ معاشی نقصانات 20 ارب سے 40 ارب امریکی ڈالر کے درمیان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعی ایک علاقائی رجحان سے بڑھ کر دنیا بھر کے لوگوں کے لئے خطرہ بن گیا ہے۔
ہوف مین نے کہا کہ مصنوعی ذہانت سمیت جدید ہتھکنڈوں کا استعمال ان جرائم کی سرحد پار نوعیت کے ساتھ مل کر انفرادی ممالک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے چیلنجز پیدا کرتا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ جرائم پیشہ گروہ سائبر سپیس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ملک سے کام کرتے ہیں اور دوسرے ملکوں یہاں تک کہ براعظموں میں بھی دوسروں کو نشانہ بناتے ہیں جس سے ان کے پیچھے موجود جرائم پیشہ نیٹ ورکس کی شناخت کرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خطے میں فوجداری انصاف کے نظام کے لئے ان مسائل سے نمٹنا زیادہ سے زیادہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔
ہوف مین نے کہا کہ چین اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کے ارکان بشمول تھائی لینڈ اور میانمار کے درمیان حالیہ تعاون نے بین الاقوامی کوششوں کے لئے "رفتار کا ایک اہم احساس” پیدا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین نے منشیات سے متعلق جرائم اور ٹیلی کام فراڈ سکیموں دونوں کا مقابلہ کرنے میں دوسرے ممالک کو اہم مدد فراہم کی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ ٹیلی کام فراڈ سے نمٹنے کے لئے چین کا نکتہ نظر ، بشمول فعال روک تھام کے اقدامات دوسرے ممالک کے لئے قیمتی تجربہ فراہم کرسکتے ہیں۔
ہوف مین نے کہا کہ ان جرائم کی پیچیدگی اور بدلتی ہوئی نوعیت مضبوط تعاون کی متقاضی ہے جس میں چین کا کردار اور تجربہ ضروری ہوگا۔
