چین کے دارالحکومت بیجنگ میں چائنہ عالمی سپلائی چین نمائش کے دوران لوگ پودوں کا تحفظ کرنے والے ایک ڈرون کی تصویر لے رہے ہیں-(شِنہوا)
چھنگ دو(شِنہوا)چین کے جنوب مغربی صوبے سیچھوان میں واقع پہاڑی قصبے چیوانگ میں 20 جنوری کی موسم سرما کی صبح چیوانگ کے پارٹی سربراہ یوآن تاؤ کے لئے 2 اچھی خبروں کے ساتھ شروع ہوئی۔
صرف 2 ماہ قبل قصبے میں نئی قائم ہونے والی ڈرون ٹرانسپورٹیشن کمپنی نے پہلے ہی سال کے آخر تک آرڈر حاصل کر لئے تھے، جس کی متوقع ٹیکس آمدن 6لاکھ یوآن (تقریباً 83 ہزار684 امریکی ڈالر) کے قریب تھی جبکہ ایک مقامی بانس پروسیسنگ کمپنی 2025 میں اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانے کا منصوبہ بنا رہی تھی۔
یوآن کے اندازوں کے مطابق مقامی لوگوں کی آمدنی میں اضافے کو چھوڑ کر شہر کو 2025 میں 12لاکھ یوآن سے زیادہ کی ریکارڈ ٹیکس آمدن حاصل ہونے کا امکان ہے جو 2024 کے مقابلے میں 20 فیصد سے زیادہ کا نمایاں اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ اسے جلد ہی احساس ہوا کہ اس اضافے کے پیچھے کم اونچائی والی معیشت ہے۔
لیکن چین کے دارالحکومت بیجنگ سے تقریباً 1900 کلومیٹر دور سیچھوان اور گوئی ژو کے چوراہے پر واقع یہ چھوٹا سا قصبہ کم اونچائی کی بڑھتی ہوئی معیشت سے کیسے منسلک ہوگیا؟ اس کے پیچھے کی کہانی واقعی دلچسپ ہے۔
2024 سے پہلے ایک برادری اور 7 دیہات پرپھیلی 23ہزار سے زیادہ آبادی والا یہ قصبہ بنیادی طور پر اپنی بانس کی صنعت کے لئے جانا جاتا تھا۔ زیادہ تر مقامی کسان ڈرون کو ذاتی طور پر دیکھنا تو دور کی بات کبھی لوژو سے باہر نکلے ہی نہیں تھے۔
یہ سب ستمبر 2024 کے اوائل میں شروع ہوا، جب ڈرون آپریشنز میں مہارت رکھنے والی کمپنی سیچھوان ہونگ ہوانگ ٹیکنالوجی کمپنی لمیٹڈ کے سربراہ وانگ فی کو لوژو میں ایک کاروباری میچ میکنگ ورکشاپ کے دوران چیوانگ کے بانس کے وسائل کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
اس کے بعد وانگ نے چیوانگ کا دورہ کیا جس کا مقصد مقامی دیہاتیوں کو پہاڑوں سے بانس کی نقل و حمل میں مدد کے لئے ایک کیبل وے قائم کرنا تھا۔
چیوانگ کے آس پاس بانس کے جنگلات ہیں جو 3لاکھ مو (تقریباً 20ہزار ہیکٹر) پر پھیلے ہوئے ہیں، جس سے یہ لوژو میں بانس کی پیداوار کے بنیادی علاقوں میں سے ایک ہے تاہم پہاڑی علاقے کی وجہ سے پہاڑیوں کی چوٹیوں سے کاٹے گئے بانس کو لے آنا ایک بڑا چیلنج ہے، جس کی وجہ سے اکثر گاؤں والے اپنے بانس کو "قدرتی طور پر تباہ” ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور وہ اسے منتقل کرنے کوششیں کرتے ہیں۔
کیبل وے بنانے کے بجائے وانگ نے خود سوچا کیوں نہ بانس کو براہ راست ڈرون سے منتقل کیا جائے؟
ایک فیلڈ سروے کرنے کے بعد وانگ نے یوآن کو یہ خیال پیش کیا، اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ بانس کے بہت سے باغات دیہی سڑکوں کے 300 میٹر کے اندر واقع ہیں، جو انہیں کم اونچائی پر ڈرون کے نقل و حمل کے لئے مثالی بناتے ہیں۔
نومبر کے اوائل میں وانگ بانس کی نقل و حمل کے عمل کا مظاہرہ کرنے کے لئے پیشہ ور افراد کی ایک ٹیم لائے۔
ایک ڈرون تقریباً 10 میٹر لمبی رسی کے ساتھ بانس کے ایک باغ پر اترا۔ ایک دیہاتی نے تیزی سے 50 کلو گرام وزنی بانس کا بنڈل باندھا اور اس بنڈل کو لے جانے والے ڈرون نے تقریباً 300 میٹر کی اڑان بھری اور پھر اسے گاؤں کی سڑک کے کنارے ایک میدانی علاقے میں اتار دیا۔
یوآن اور اس کے ساتھی دیہاتیوں کے لئے یہ آنکھیں کھولنے والا تجربہ تھا۔ یوآن نے شِنہوا کو بتایا کہ میں نے سوچا کہ یہ صرف ایک فلم میں ہو سکتا ہے۔ اتنا بڑا کھلونا طیارہ ایسا کیسے کرسکتا ہے؟
لوژو میں بانس پیدا کرنے والا چیوانگ اکیلے 70ہزار مو پر مشتمل بانس کے جنگلات کا مسکن ہے، جس میں سے آدھے سے زیادہ پہاڑی علاقوں میں واقع ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون کا استعمال ہمارے شہر میں بانس کی نقل و حمل کے 70 فیصد سے زیادہ چیلنجز کو حل کرسکتا ہے۔
ڈرون مظاہرے کے بعد چیوانگ کے لوگوں نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔
یوآن نے کہا کہ ہم کم اونچائی والی معیشت کی طرف سے لائے گئے مواقع کو ضائع نہیں کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگلے دن 9 ڈرونز کی پہلی کھیپ نے آپریشن شروع کیا۔
بانس کے خریدار اور چیوانگ میں اکثر آنے والے چو جیانگ تاؤ صرف 3 ماہ میں ہونے والی ‘انقلابی’ تبدیلیوں سے دنگ رہ گئے تھے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ایک دن پہلے ڈرون نے پہاڑوں سے 4 ٹن بانس پہنچایا تھا اور اگلی صبح تک ان کے پاس تقریباً 10 ٹن بانس تھا جو ایک ٹرک کے لئے کافی تھا۔
ڈرون ٹرانسپورٹ شروع کرنے سے پہلے 3 گاؤں والوں کو ایک ٹن بانس کو صرف 200 میٹر کی سیدھی لائن کے فاصلے پر لے جانے میں تقریباً 3 دن لگتے تھے۔
