اتوار, جولائی 27, 2025
Uncategorizedسپریم کورٹ، سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس کا ریکارڈ آئینی بنچ میں...

سپریم کورٹ، سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس کا ریکارڈ آئینی بنچ میں پیش

وزارت دفاع نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس کا ریکارڈ آئینی بینچ میں پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملٹری ٹرائل کنڈکٹ کرنیوالے کیلئے تجربہ ضروری نہیں، پریزائیڈنگ افسر نے صرف حقائق دیکھنے ہوتے ہیں ملزم قصور وار ہے یانہیں، جبکہ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ 9مئی واقعات میں بظاہر سیکیورٹی آف اسٹیٹ کا معاملہ نہیں لگتا، کیا تمام ریکارڈ پبلک کرنا ممکن نہیں؟ 9مئی واقعات کے ملزمان کے کارنامے عوام میں بے نقاب ہونے چاہئیں۔

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری ٹرائل کے طریقہ کار پر دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ جج، ایڈووکیٹ جنرل حلف اٹھاتا ہے کہ غیر جانبداری برقرار رکھے گا، سپریم کورٹ اس سماعت میں ہر کیس کا انفرادی حیثیت سے جائزہ نہیں لے سکتی۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے آرٹیکل 184کی شق 3کا کیس عدالت کے سامنے نہیں ،جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ملٹری ٹرائل کس بنیاد پر چیلنج ہو سکتا ہے؟،

وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ مجاز عدالت نہ ہو، بدنیتی پر مشتمل کارروائی چلے یا اختیار سماعت سے تجاوز ہو تو ٹرائل چیلنج ہو سکتا ہے، اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم اقبال جرم کر لے تو اسے اسلامک قانون کے تحت رعایت ملتی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اقبال جرم تو مجسٹریٹ کے سامنے ہوتا ہے، وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ وہ معاملہ الگ ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم وکیل کی حیثیت نہ رکھتا ہو کیا اسے سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے؟خواجہ حارث نے کہا کہ وکیل کرنے کی حیثیت نہ رکھنے والے ملزم کو سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عام طور پر تو ملزم عدالت کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے، کیا ملٹری کورٹ میں بھی ملزم کو فیورٹ چائلڈ سمجھا جاتا ہے؟۔وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے رولز کے تحت ملزم کو مکمل تحفظ دیا جاتا ہے،

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ میں نے بطور چیف جسٹس بلوچستان ملٹری کورٹس کے فیصلے کیخلاف اپیلیں سنی ہیں، ایسا نہیں ہوتا محض ملٹری کورٹس کے فیصلے میں صرف ایک سادے کاغذ پر لکھ دیا جائے کہ ملزم قصور وار ہے یا بے قصور ہے، جب رٹ میں ہائی کورٹس میں اپیل آتی ہے تو جی ایچ کیو پورا ریکارڈ فراہم کرتا ہے جس میں پوری عدالتی کارروائی ،شواہد سمیت پورا طریقہ کار درج ہوتا ہے۔ انہوں نے خواجہ حارث سے کہا کہ آپ 9مئی مقدمات سے ہٹ کر ماضی کے ملٹری کورٹس کے فیصلے کی کچھ مثالیں بھی پیش کریں۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ غیر ملکی جاسوسوں کے علاوہ اگر کسی عام شہری کا ملٹری ٹرائل ہو تو کیا وہاں صحافیوں اور ملزم کے رشتہ داروں کو رسائی دی جاتی ہے؟ ،وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قانون میں رشتہ داروں اور صحافیوں کو رسائی کا ذکر تو ہے لیکن سکیورٹی وجوہات کے سبب رسائی نہیں دی جاتی۔جسٹس محمد علی مظہر سوال اٹھایا کہ اگر ٹرائل میں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو کیا اپیل میں اس غلطی کی نشاندہی کی وجہ سے ملزم کو فائدہ ملتا ہے؟

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اپیل کا حق دیا گیا ہے اور اس کی تمام پہلو دیکھے جاتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا رٹ میں اتنا اختیار ہے کہ پروسیجر کو دیکھا جائے کہ اسے مکمل فالو کیا گیا یا نہیں؟ خواجہ حارث نے کہا کہ تمام پروسیجر فالو ہوتا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ رٹ میں کوئی ایسی اتھارٹی تو ہو جو پروسیجر کو دیکھ سکے اور اسکا جائزہ لے، زندگی کسی کی بھی ہو انتہائی اہم ہوتی ہے، جج پر بھی تو منحصر ہوتا ہے کہ وہ ٹرائل کیسے چلاتا ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اپیل میں اپیل کنندہ کو کیا مکمل موقع دیا جاتا ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ رولز 63میں ملٹری کورٹ کے پریزائیڈنگ افسر کو ذمہ داریاں دی گئی ہیں، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا اور شفاف ٹرائل کا موقع دینا اس کی ذمہ داری میں شامل ہے، حلف لینے کے بعد آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کرتے ہیں۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ ٹرائل کنڈکٹ کرنے والے کا تجربہ ہوتا ہے یا پہلی دفعہ ہی بٹھا دیا جاتا ہے؟ ،خواجہ حارث نے جواب دیا کہ تجربہ ضروری نہیں لیکن ملٹری ایکٹ پر عبور رکھتا ہو ۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ 1992ء میں مجسٹریٹ اور کمشنر وغیرہ بھی ٹرائل کرتے تھے ،مجسٹریٹ کے سامنے قتل کیس جاتا تھا توسزا دے دیتے ، جب کہا جاتا کہ اس میں شہادتیں نہیں تو سزا کیسی تو جواب ملتا قتل تو ہوا ہے، پروسیجر اور شفاف ٹرائل کا موقع تو فراہم ہونا چاہئے، سیشن جج 20 سال کی محنت کے بعد سیشن جج بنتے ہیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کرنے والوں کو اس کی کوئی خاص ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہوتی، انہوں نے صرف حقائق دیکھنے ہوتے ہیں کہ یہ قصور وار ہے یا نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آجکل ہمارا ملک اتنا ٹرینڈ ہوچکا ہے کہ 8ججز کے فیصلے کو 2لوگ بیٹھ کے کہتے ہیں غلط ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ سوشل میڈیا کی تو بات نہ کریں وہاں کیا کچھ نہیں ہو رہا ہے، سوشل میڈیا پر کچھ لوگ بیٹھ کر اپنے آپ کو سب کچھ سمجھتے ہیں،

ان کا کام ہے ان کو کرنے دیں ہمیں ان کی ضرورت نہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ افسوس ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسے تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے ہم کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، میرا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے میں ملٹری ٹرائل پر اس کے اثرات کہ وجہ سے سوال کرتی ہوں لیکن افسوس میرے ان سوالات کی وجہ سے مجھے سیاسی پارٹی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔اس موقع پر سماعت میں وقفہ کر دیا گیا، وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے سفید کاغذی لفافوں میں ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ آئینی بینچ میں پیش کیا، ملٹری ٹرائل کی سات کاپیاں آئینی بینچ کے ساتوں ججز کو دی گئیں۔وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت ٹرائل کا طریقہ کار دیکھ لے، ٹرائل سے قبل پوچھا گیا کسی کو لیفٹیننٹ کرنل عمار احمد پر کوئی اعتراض تو نہیں،

کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ ریکارڈ تو اپیل میں دیکھا جانا ہے، ہمارے لئے اپیل میں اس ریکارڈ کا جائزہ لینا مناسب نہیں، ہم ٹرائل کو متاثر نہیں ہونے دیں گے۔آئینی بنچ کے 6ججز نے ٹرائل کا ریکارڈ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو واپس کر دیا تاہم جسٹس مسرت ہلالی کی جانب سے ریکارڈ واپس نہیں کیا گیا۔خواجہ حارث نے آرٹیکل 14کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ جسٹس عائشہ ملک نے اپنی ججمنٹ میں ایک پوائنٹ سے اختلاف کیا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایف آئی آر میں تمام سیکشنز پی پی سی کے نیچے آتی ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ ایف آئی آر میں ان صاحب کا نام میٹر نہیں کرتا، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ وہ چشم دید گواہ بھی نہیں ہے ۔خواجہ حارث نے کہا کہ 9ملزمان میں سے 4چشم دید گواہ ہیں، آپ اتنی تفصیل سے ملٹری کورٹس کی دستاویزات دیکھ رہی ہیں اور ایسے سوالات اٹھا رہی ہیں،

کل کو اپیل آپ کے پاس آنی ہیں، آپ کو کیس کے میرٹ سے متعلق سوال نہیں پوچھنے چاہئیں کہ یہ معاملہ ابھی آپ کے پاس اپیل میں آنا باقی ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میرے ذہن میں جو سوال بنتا ہے وہ میں کروں گی کسی کو اچھا لگے یا برا۔عدالت نے استفسار کیا کہ بنیادی انسانی حقوق کا فوجی ٹرائل میں کیا معیار ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا عوامی سماعت ہوتی ہے، پبلک کو سماعت سننے کا مکمل موقع دیا جاتا ہے، آزادنہ اور غیر جانبدرانہ ٹرائل ہوتا ہے، ملٹری کورٹس میں فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کئے جاتے ہیں، ملٹری کورٹس آزاد ہیں۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمار کس دیے کہ انصاف صرف ہونا نہیں چاہئے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہئے، ملٹری ٹرائل کرنے والا جج تو اتھارٹیز کے ماتحت ہوتا ہے، خواجہ حارث نے موقف اپنایا اگر کسی کے پاس کوئی شواہد ہیں تو بات کریں، محض تاثر پر اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا۔جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ مجھے کسی پر کوئی شک ہے نہ اعتراض ہے، ملٹری کورٹس میں ٹرائل کرنے والے کون ہیں؟

۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ کی جانب سے دیئے گئے ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا، تفصیل میں نہیں گیا، 9مئی واقعات میں بظاہر سیکیورٹی آف اسٹیٹ کا معاملہ نہیں لگتا، 9مئی واقعات کے ملزمان کا ملٹری ٹرائل بہت تفصیل سے چلایا گیا، کیا تمام ریکارڈ پبلک کرنا ممکن نہیں؟ 9مئی واقعات کے ملزمان کے کارنامے عوام میں بے نقاب ہونے چاہئیں۔جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کیا آرٹیکل 176کے تحت ملٹری کورٹس کے قیام کیلئے گنجائش رکھی گئی ہے؟ ،خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ ایسا ہوا تو ملٹری کورٹس کے قیام سے متعلق جتنے بھی فیصلے دیئے گئے ان پر نظرثانی کرنا پڑے گی، آئین میں قانون کے تحت عدالتوں کے قیام کا ذکر ہے، کئی ممالک میں ملٹری کورٹس ہیں۔

جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ نارکوٹکس کا پورا کنٹرول فوج کے پاس ہے، نارکوٹکس میں کوئی ٹرائل چلانا ہوتا ہے تو متعلقہ چیف جسٹس سے سیشن جج مانگا جاتا ہے، کیا ملٹری کورٹس میں ایسا ہوتا ہے؟۔خواجہ حارث نے کہا کہ تمام عدالتی فیصلوں میں ملٹری کورٹس کو آرٹیکل 175سے الگ رکھا گیا ہے، آرمی ایکٹ کو بنیادی حقوق کی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے پر وکیل سکندر بشیر مہمند اور شمائل بٹ نے بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا لئے ۔ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے بار ایسوسی ایشنز کے وکلا کو تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔

انٹرنیوز
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!