ہیڈ لائن:
بنام سہانوک ، کمبوڈیا کی آزادی کے لئےجدوجہد
جھلکیاں:
فرانس کے نوآبادیاتی نظام کے ہاتھوں ہونے والی لوٹ مار کے بعد کمبوڈیا کے پاس کوئی صنعت نہیں بچی تھی۔ یہ ملک ایشیا کے غریب ترین علاقوں میں سے ایک بن گیا تھا۔5 نومبر 1953 کو کمبوڈین بادشاہ فادر نورودم سہانوک نے ملک کی حقیقی آزادی کا اعلان کیا تو اس کے ساتھ ہی وہاں پر فرانس کی 90 سالہ نوآبادیاتی حکمرانی کا دور اپنے اختتام کو پہنچا۔
چین اور کمبوڈیا قریبی ہمسائے ہیں۔کمبوڈیا کے آنجہانی بادشاہ فادر نورودم سہانوک نے ایک بار کہا تھا: ’’کمبوڈیا اور چین کے دوستانہ تعلقات کو کبھی کسی مسئلے یا اختلاف کا سامنا نہیں ہوا۔ یہی بات میرے ملک اور عوام کے لئے فائدہ مند ہے۔‘‘
تفصیلی خبر:
19 ویں صدی کے دوسرے نصف تک فرانس کی استعماری لوٹ مار کے بعد کمبوڈیا کے پاس زرعی مصنوعات کی پروسیسنگ اور ربڑ کے سوا تقریباً کوئی صنعت باقی نہیں بچی تھی۔ یہ ملک ایشیا کے غریب ترین علاقوں میں سے ایک بن گیا تھا۔
کِن پھیہ، ڈائریکٹر جنرل، انٹرنیشنل ریلیشنز انسٹی ٹیوٹ، رائل اکیڈمی، کمبوڈیا
’’تقریباً ایک صدی تک فرانسیسی استعمار کی حکمرانی کے دوران کمبوڈیا نے معاشی اور سماجی طور پر شدید مشکلات کا سامنا کیا۔ فرانس نے کمبوڈیا کو خام مال جیسے چاول اور ربڑ کی سپلائی کے ایک ذریعےکے طور پر استعمال کیا۔ انہوں نے معاشی ترقی کے بجائے صرف وسائل نکالنے پر توجہ مرکوز رکھی۔ اس سے بھی بڑھ کر سنگین بات یہ تھی کہ فرانس نے کمبوڈیا کے عوام پر بھاری ٹیکس عائد کر دئیے جس کے باعث وہاں غربت میں اضافہ ہوتا گیا۔
سماجی لحاظ سے فرانسیسی قبضے کے دوران محدود پیمانے پر تعلیم دی جاتی تھی۔ سکول صرف اشرافیہ کے بچوں یا ان لوگوں کے لئے قائم کئے گئے جو استعماری مفادات کی خدمت انجام دے سکتے تھے۔ دوسری جانب آبادی کا زیادہ تر حصہ تعلیم سے محروم رہا۔ اس کے علاوہ فرانس نے اپنی زبان اور ثقافت کو بھی یہاں مسلط کرنے کی کوشش کی جس سے کمبوڈیا کی قومی زبان خمیر، کی روایات اور ثقافتی سرگرمیاں زوال کا شکار ہو گئیں۔‘‘
امن کی بحالی کے بعد سہانوک کے غیرجانبداری اور امن کے جذبے کی بدولت کمبوڈیا آہستہ آہستہ تیز رفتار ترقی کے راستے پر گامزن ہو گیا۔چین اور کمبوڈیا قریبی ہمسائے ہیں۔ چین کے پرامن بقائے باہمی کے 5 اصول سہانوک کے ’’غیرجانبداری‘‘ کے اصول سے ہم آہنگ ہیں۔ اس کی وجہ سے دونوں ممالک میں دوستانہ تعلقات کا قیام ایک بہت ہی فطری بات بن گئی ہے۔
کِن پھیہ، ڈائریکٹر جنرل، انٹرنیشنل ریلیشنز انسٹی ٹیوٹ، رائل اکیڈمی، کمبوڈیا
’’کئی دہائیوں سے جاری مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں دونوں ممالک (کمبوڈیا اور چین) کے درمیان روایتی دوستانہ تعلقات کے ساتھ ساتھ متعدد شعبوں میں تعاون مستحکم ہوا ہے۔ باہمی اعتماد، احترام، تعاون اور اجتماعی فائدے کی بنیاد پر چین اور کمبوڈیا کے تعلقات آج بے مثال طاقت رکھتے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو کے تحت چین نے کمبوڈیا میں متعدد بڑے منصوبوں کا آغاز کیا ہے۔ ان اہم منصوبوں نے کمبوڈیا کی سماجی و معاشی ترقی اور غربت میں کمی کے حوالے سےبہت اہم کردار ادا کیا ہے۔‘‘

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link