ہیڈ لائن:
غزہ کے بچے جنگ کی وجہ سے خیموں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور
جھلکیاں:
غزہ میں جاری جنگ کے دورن کم از کم 352 سکول تباہ جبکہ اب تک 4 ہزار سے زائد طلباء اور اساتذہ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ فلسطینی بچے اس وقت خیموں میں بنے عارضی کلاس رومز میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ آئیے اس کی تفصیل اس ویڈیو میں جانتے ہیں۔
شاٹ لسٹ:
1۔ خیموں میں فلسطینی بچوں کے تعلیم حاصل کرنے کے مختلف مناظر
2۔ ساؤنڈ بائٹ 1 (عربی): فریدہ الغول، ریاضی کی استاد، غزہ
3۔ خیموں میں فلسطینی بچوں کے تعلیم حاصل کرنے کے مختلف مناظر
4۔ ساؤنڈ بائٹ 2 (عربی): ندا النجار،خیمے میں قائم سکول کی طالبہ
5۔ خیموں میں فلسطینی بچوں کے تعلیم حاصل کرنے کے مختلف مناظر
تفصیلی خبر:
غزہ کی پٹی جنگ سے تباہ ہو چکی ہے اور ان دنوں یہاں رسمی تعلیم رک گئی ہے۔ فلسطینی اساتذہ پناہ گزین کیمپوں میں عارضی کلاس رومز قائم کر رہے ہیں۔ پناہ گزین کیمپوں میں عارضی سکولوں کا قیام اس عزم کا اظہار ہے کہ اقوام متحدہ کے انتباہ کے مطابق بچوں کو ایک ’’کھوئی ہوئی نسل‘‘ بننے سے بچایا جا سکے۔
30 سالہ فریدہ الغول غزہ کے 20 لاکھ سے زائد بے گھر افراد میں شامل ہیں۔ انہوں نے 2 ماہ قبل دیر البلاح، کے پناہ گزین کیمپوں میں خیموں کے سکول قائم کرنے کی ایک مہم کا آغاز کیا تھا۔ان عارضی کلاسز میں بنیادی مضامین ریاضی، عربی اور سائنس پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ان کلاسز کے ذریعے رسمی تعلیم سے محروم ہونے والے بچوں کو تعلیم کے حصول کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 1 (عربی): فریدہ الغول، ریاضی کی استاد، غزہ
’’ غزہ کی پٹی میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری نسل کشی کے بعد بچے یہ بات بھول چکے ہیں کہ تعلیم کیا ہے اور سکول کسے کہتے ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ غزہ کی پٹی میں یہ سب کچھ اب نظرانداز ہو چکا ہے۔ اس لئے ہم غزہ کے بچوں میں اس مہم کے ذریعے سکول کے تصور کا ایک چھوٹا سا حصہ بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہاں کئی چیلنجز اور مشکلات ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جنگ جاری رہنے کی صورت میں ہم یہ سلسلہ روک دیں ۔ ہماری یہ سوچ صرف تعلیم کے شعبے تک محدود نہیں بلکہ دیگر تمام شعبوں میں بھی ہے۔‘‘
مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ طلباء زمین پر بیٹھ کر پڑھائی کرتے ہیں۔ ان کے پاس چند ہی کاپیاں ہیں ۔تحریری سامان بھی ناکافی ہے۔ کلاسز زیادہ تر زبانی ہوتی ہیں۔ پڑھائی کے دوران سبق دہرانے اور یادداشت پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔ پھر بھی یہ سادہ سی کلاسز ان بچوں کو معمول کی زندگی سے جڑنے کا ایک اہم ذریعہ فراہم کرتی ہیں ۔
ساؤنڈ بائٹ 2 (عربی): ندا النجار،خیمے میں قائم سکول کی طالبہ
’’ ہم خیموں میں پڑھائی کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ اسرائیلی فوج نے سکولوں پر بمباری کی اور ان کے ملبے کو پناہ گزیوں کےمراکز میں تبدیل کر دیا۔ ان ہمیں خیموں میں پڑھنا پڑ رہا ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ جنگ ختم ہو گی اور سکول دوبارہ کھل جائیں گے۔‘‘
غزہ میں تعلیمی نظام کا تباہ ہو جانا حیران کن ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق تمام سکول جانے والے بچوں میں سے نصف تعداد ایسی ہے جس کا دوسرا سال بھی رسمی تعلیم سے محرومی کے عالم میں گزر رہا ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (یو این آر ڈبلیو اے) نے اپنی ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ جنگ، غزہ کے تعلیمی نظام کو نصف دہائی پیچھے دھکیل سکتی ہے۔
یہاں تعلیم کا بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے ۔ غزہ کے تعلیمی حکام کے مطابق، لڑائی میں کم از کم 352 سکولوں کو نقصان پہنچا ہے ۔ ان سکولوں میں سے بیشتر کی عمارتیں بے گھر ہونے والوں کے لئے پناہ گاہوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ رام اللہ میں فلسطین کی وزارت تعلیم کی رپورٹ کے مطابق جنگ شروع ہونے سے اب تک 4 ہزار سے زائد طلباء اور اساتذہ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
غزہ، فلسطین سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link