چین کے مشرقی شہر شنگھائی میں 7 ویں چین بین الاقوامی درآمدی نمائش (سی آئی آئی ای) کے دوران شہری جنرل الیکٹرک کے نمائشی ایریا میں رائز ٹیکنالوجی کا ماڈل دیکھ رہے ہیں-(شِنہوا)
بیجنگ(شِنہوا)بہت سے ماہرین اقتصادیات، کثیرالقومی کمپنیاں اور عام صارفین نئے سال 2025 کے لئے دنیا کی 2 سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان مستحکم اور مثبت روابط کی یکساں خواہش کا اظہار کرسکتے ہیں۔
2024 میں چین اور امریکہ نے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی 45 ویں سالگرہ منائی۔ 2025 اور آنے والے برسوں میں امریکی صدارتی انتخابات کے اختتام کے بعد دو طرفہ تعلقات عالمی توجہ کا مرکز بنتے رہیں گے۔
اگرچہ مستقبل میں چین اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میں اندازے مختلف ہیں لیکن تشویش اور امید دونوں ایک حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات سب کے لئے اہم ہیں۔
امریکہ میں چین کے سفیر شائے فینگ نے دسمبر کے اوائل میں ایک تقریب میں کہا تھا کہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ چین اور امریکہ تعاون سے فائدہ اور تصادم سے نقصان ہوتا ہے۔
شائے فینگ نے کہا کہ اس نئے چوراہے پر ہم پیچھے نہیں ہٹ سکتے یا ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتے تاہم دونوں پیچھے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین کی ڈکشنری میں باہمی فائدہ سب سے خوبصورت الفاظ ہیں اور دونوں ملکوں کے لئے باہمی تعاون بہترین انتخاب ہے۔
گزشتہ دہائیوں میں چین اور امریکہ کے معاشی مفادات ایک دوسرے سے مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں۔ 1979ء سے 2023ء کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں 200 گنا اضافہ ہوا اور دو طرفہ سرمایہ کاری کا مجموعی حجم 260 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے۔
امریکہ چین تجارتی کونسل (یو ایس سی بی سی) کی اپریل کی رپورٹ کے مطابق چین 2023 میں امریکہ کی تیسری سب سے بڑی سامان کی برآمدی مارکیٹ اور 2022 میں چھٹی سب سے بڑی خدمات کی برآمدی مارکیٹ تھی۔ 2022 میں چین کو برآمدات نے امریکہ میں 9لاکھ 30 ہزار سے زیادہ ملازمتوں کے مواقع فراہم کئے۔
چین امریکی کمپنیوں کے لئے مواقع کی سرزمین رہا ہے۔ 70ہزار سے زیادہ امریکی کمپنیوں نے ملک میں کاروبار قائم کیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ افتتاحی اور دوسری چین بین الاقوامی ترسیلی نمائش میں امریکی کمپنیوں نے سب سے بڑے غیر ملکی نمائش کنندگان کا دستہ شامل کیا۔ ایپل کے 200 کلیدی سپلائرز میں سے 80 فیصد چین میں اپنی مصنوعات تیار کرتے ہیں۔
دوسری جانب امریکہ میں چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری سے مقامی روزگار میں اضافہ ہوا ہے۔ چائنہ جنرل چیمبر آف کامرس یو ایس اے کی چینی رکن کمپنیوں نے امریکہ میں 144 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے جس سے براہ راست 2لاکھ 30ہزار سے زیادہ ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں۔
دوطرفہ تعلقات میں چیلنجز اور تناؤ کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تجارتی قدر 2024 کے پہلے 11 ماہ میں 44کھرب 40ارب یوآن (تقریباً 617.73 ارب امریکی ڈالر) تک پہنچ گئی، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں4.2 فیصد زیادہ ہے۔
یو ایس سی بی سی کے سابق صدر کریگ ایلن نے کہا کہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم امریکی قانون سازوں اور بااثر عہدوں پر فائز افراد کو یاد دلائیں کہ امریکہ کی ہر ریاست اور کانگریس کے ضلعے چین کے ساتھ اپنے اقتصادی اور تجارتی تعلقات برقرار رکھتے ہیں اور امریکہ- چین تجارتی پالیسی میں تبدیلیوں پر بہت احتیاط سے غور کیا جانا چاہئے۔
تاریخ اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں معیشتوں کے درمیان مضبوط باہمی تعلق کو دیکھتے ہوئے چینی مصنوعات پر محصولات میں اضافہ اور چین کے خلاف دیگر تجارتی اور سرمایہ کاری پابندیوں کے اقدامات یقینی طور پر الٹا اثر ڈالیں گے، افراط زر کو بڑھاوا دیں گے اور جدیدیت میں رکاوٹ ڈالیں گے۔
2023 میں جاری ہونے والی ایک مشترکہ امریکی تحقیق میں 2018 سے چین سے ملبوسات، جوتے، سفری سامان اور فرنیچر کی امریکی درآمدات پر عائد دفعہ 301 محصولات کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ صرف جوتوں کے لئے محصولات نے درآمد کنندگان پر سالانہ 25کروڑ امریکی ڈالر کا براہ راست بوجھ ڈالا، جو ہر سال بڑھ کر 2022 میں 45کروڑ ڈالر سے تجاوز کرگیا۔
ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر گراہم ایلیسن نے دسمبر میں چین کے اپنے دورے کے دوران کہا تھا کہ امریکہ اور چین کو جال میں پھنسنے سے بچنا چاہئے اور ان کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے کا صحیح راستہ تلاش کرنا دونوں ممالک اور دنیا کے لئے اہم ہے۔
مجموعی طور پر چین اور امریکہ دنیا کی مجموعی اقتصادی پیداوار کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ رکھتے ہیں اور ان کا مشترکہ تجارتی حجم عالمی مجموعی پیداوار کا تقریباً 5 واں حصہ ہے۔ شائے فینگ کا کہنا تھا کہ ہمارے درمیان کسی بھی قسم کی علیحدگی سے دنیا مزید غریب ہو جائے گی۔
اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی (یو این سی ٹی اے ڈی) نے اپنی تازہ ترین گلوبل ٹریڈ اپ ڈیٹ میں کہا ہے کہ 2025 کے تجارتی منظر نامے پر ممکنہ امریکی پالیسی تبدیلیوں کے بادل منڈلا رہے ہیں، جن میں وسیع تر محصولات بھی شامل ہیں جو عالمی ویلیو چینز میں خلل ڈال سکتے ہیں اور اہم تجارتی شراکت داروں کو متاثر کرسکتے ہیں۔
یو این سی ٹی اے ڈی نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے جوابی کارروائی اور لہر کے اثرات پیدا ہونے کا خطرہ ہے ، جس سے صنعتوں اور معیشتوں کے ساتھ ساتھ پوری سپلائی چین متاثر ہوگی۔ یہاں تک کہ محصولات کی محض دھمکی بھی غیر یقینی صورتحال پیدا کرتی ہے جبکہ تجارت، سرمایہ کاری اور معاشی ترقی کو کمزور کرتی ہے۔
