چین کے جنوبی مشرقی صوبے فوجیان کے شہر فوزو میں ” کولیانگ کے ساتھ تعلق:چین امریکہ نوجوان میلہ 2024″ میں شریک مہمان جمع کردہ ڈاک ٹکٹ دکھارہےہیں۔(شِنہوا)
بیجنگ(شِنہوا)پیرو کے دارالحکومت لیما میں ایپیک اقتصادی رہنماؤں کے 31 ویں اجلاس کے موقع پر امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے دوران چینی صدر شی جن پھنگ نے دو طرفہ تعلقات پر چین کی 4 سرخ لکیروں کا ذکر کیا جنہیں چیلنج نہیں کیا جانا چاہئے۔
تائیوان معاملہ، جمہوریت اور انسانی حقوق، چین کا راستہ اور نظام اور چین کی ترقی کا حق نامی سرخ لکیریں نہ صرف اپنے بنیادی مفادات کے تحفظ کے لئے چین کے پختہ عزم کو اجاگر کرتی ہیں بلکہ اختلافات کو مناسب طریقے سے ہموار کرنے اور دوطرفہ تعلقات کے استحکام کو برقرار رکھنے کی خاطر دونوں فریقوں کے لئے سب سے اہم محافظ اور حفاظتی جال کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔
دو بڑے ممالک کی حیثیت سے اختلافات خارج از امکان نہیں تاہم انہیں ایک دوسرے کے بنیادی مفادات کو کمزور نہیں کرنا چاہئے یا تصادم میں اضافہ نہیں کرنا چاہئے۔
تاریخ گواہ ہے کہ چین اور امریکہ کے تعلقات میں خلل کی بنیادی وجہ چین کے بنیادی مفادات پر امریکی اشتعال انگیزی ہے۔ اس طرح کے اقدامات نے دوطرفہ تعلقات کو تاریخ کی نچلی سطح پر پہنچا دیا تھا۔ ان اسباق کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔
چونکہ امریکہ اقتدار کی منتقلی سے گزر رہا ہے، اس لئے یہ ضروری ہے کہ 4 سرخ لکیروں کا احترام کیا جائے تاکہ دوطرفہ تعلقات میں استحکام کی سخت محنت سے حاصل کردہ رفتار کو برقرار رکھا جاسکے اور مستقبل کے مذاکرات کے لئے ایک ٹھوس بنیاد رکھی جاسکے۔
تائیوان کا سوال چین کے بنیادی مفادات کا مرکز اور پہلی سرخ لکیر ہے جسے چین-امریکہ تعلقات میں عبور نہیں کیا جا سکتا۔ ایک چین کے اصول اور 3 چین-امریکہ مشترکہ اعلامیے چین- امریکہ تعلقات کی سیاسی بنیاد ہیں۔ تائیوان کے سوال پر چین کے پاس سمجھوتے یا رعایت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اگر امریکہ واقعی آبنائے تائیوان میں امن برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے تائیوان کی ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کی علیحدگی پسند فطرت کو تسلیم کرنا ہوگا اور انتہائی احتیاط کے ساتھ اس مسئلے سے نمٹنا ہوگا۔ اسے واضح طور پر "تائیوان کی آزادی” کو مسترد کرنا چاہئے اور چین کے پرامن اتحاد کی حمایت کرنی چاہئے۔ اس سرخ لکیر کو عبور کرنے کی کوئی بھی قیمت چکانی پڑے گی۔
جمہوریت اور انسانی حقوق کے معاملے پر دونوں ممالک اپنے اختلافات کو مساوی بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لئے مذاکرات کر سکتے ہیں تاہم انسانی حقوق کے بہانے تقسیم پیدا کرنے یا دوسروں کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کے لئے "جمہوریت بمقابلہ آمریت” جیسے بیانیے کا استعمال قابل قبول نہیں۔
جہاں تک ترقیاتی راستوں اور سیاسی نظام کا تعلق ہے تو دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے منتخب کردہ راستے کا احترام کرتے ہوئے ایک دوسرے کے نظام کو تبدیل کرنے یا اس کا تختہ الٹنے کی کسی بھی کوشش سے گریز کرنا چاہئے۔ کوئی بھی فریق بنیادی طور پر دوسرے کو تبدیل نہیں کرسکتا۔
جہاں تک چینی عوام کی ترقی کے حق کا تعلق ہے تو اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ کو چین کی ترقی کو معروضی اور عقلی نکتہ نظر سے دیکھنا چاہئے۔ تجارتی جنگیں، تکنیکی ناکہ بندیاں یا جبری طور پر "علیحدگی” صرف نقصان دہ ہیں، جو خود امریکہ کو فائدہ پہنچائے بغیر دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ چین کی ترقی امریکہ اور دنیا کے لئے خطرہ نہیں بلکہ ایک موقع کی نمائندگی کرتی ہے۔
چین کے دارالحکومت بیجنگ کے پیلس میوزیم میں چھیانگ چھنگ گونگ محل کے سامنے امریکی ریاست واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے ہائی سکول کے طالب علموں کے ایک وفد کے ارکان سیلفی بنارہے ہیں۔(شِنہوا)
یہ 4 سرخ لکیریں امریکہ کے لئے یاد دہانی کے طور پر ہیں کہ وہ چین کے عزم کا غلط اندازہ نہ لگائے۔ اگرچہ چین امریکہ کے ساتھ مستحکم، صحت مند اور پائیدار تعلقات کو فروغ دینے کے لئے پرعزم ہے تاہم وہ اپنے بنیادی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
جیسا کہ صدر شی جن پھنگ نے امریکی صدرجو بائیڈن کے ساتھ ملاقات میں اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ چین کا اپنی خودمختاری، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کے تحفظ کا موقف برقرار ہے۔
دریں اثنا چین کو ایک بنیادی تزویراتی حریف اور سب سے اہم جغرافیائی سیاسی چیلنج کے طور پر دیکھنا سنگین طور پر گمراہ کن ہے اور صرف ایک خود ساختہ پیشگوئی کا باعث بنے گا۔
کسی بھی قسم کا تنازع چاہے وہ سرد ہو یا گرم، معاشی ہو یا تکنیکی، نہ صرف دونوں ممالک بلکہ وسیع تر دنیا کو بھی نقصان پہنچائے گا، جس کے نتائج اتنے سنگین ہوں گے کہ کسی کے لئے بھی ناقابل برداشت ہوں گے۔
ملاقات کے دوران بائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکہ نئی سرد جنگ نہیں چاہتا، وہ چین کے نظام کو تبدیل نہیں کرنا چاہتا، اس کے اتحاد چین کے خلاف نہیں ہیں، وہ "تائیوان کی آزادی” کی حمایت نہیں کرتا، وہ چین کے ساتھ تصادم نہیں چاہتا اور وہ اپنی تائیوان پالیسی کو چین سے مقابلہ کرنے کے طریقے کے طور پر نہیں دیکھتا۔
یہ وعدے دوطرفہ تعلقات کے لئے سازگار ہیں لیکن اس معاملے کا خلاصہ یہ ہے کہ انہیں عملی جامہ پہنایا جائے۔ دونوں ممالک کو طاقتوں کے تنازعات کے تاریخی نقصانات سے بچنا چاہئے اور اس کے بجائے عالمی استحکام اور مثبت رفتار کو فروغ دے کر حقیقی قیادت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
مستقبل کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ امریکہ ان 4 سرخ لکیروں کا احترام کرنے کے لئے پرعزم رہے اور محاذ آرائی اور تنازعات کے بجائے بات چیت اور تعاون کا انتخاب کرنے میں چین کا ساتھ دے تاکہ دوطرفہ تعلقات کو درست سمت پر آگے بڑھایا جا سکے۔
