سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ایشیا سنٹر فار سٹڈیز اینڈ ٹرانسلیشن کے ڈائریکٹر احمد مصطفیٰ شِنہوا کو انٹرویو دے رہے ہیں-(شِنہوا)
ریاض(شِنہوا)مصر کے ایک ماہر نے کہا ہے کہ چین کے پاس صحرا پر قابو پانے اور ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے ایک ‘ممتاز’ نکتہ نظر ہے۔ انہوں نے ماحولیاتی مسائل اور اس سے آگے کے امور پر مزید دو طرفہ تعاون پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ چین ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں صحراؤں سے لے کر گھاس کے میدانوں تک سب سے زیادہ متنوع زمینی شکلیں موجود ہیں۔ ایشیا سنٹر فار اسٹڈیز اینڈ ٹرانسلیشن کے ڈائریکٹر احمد مصطفیٰ نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں جاری اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسداد صحرا کے فریقین کی کانفرنس کے 16 ویں اجلاس کے موقع پر شِنہوا کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ صحرا پر قابو پانے کی چین کی پالیسی دور اندیش اور جامع ہے۔
ان کے مشاہدات کے مطابق چین کے تمام ترقیاتی منصوبے ماحولیاتی نظام پر مرکوز ہیں، جن کا مقصد ماحول کو ہر ممکن حد تک برقرار رکھنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ زمین کی بحالی کی کوششوں کو چینی عوام کو فائدہ پہنچانے کے اقدامات کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔
مصری منڈی میں کام کرنے والے چینی کاروباری اداروں کا ایک مثال کے طور پر حوالہ دیتے ہوئے مصطفیٰ نے کہاکہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انہوں نے سماجی اور ماحولیاتی ذمہ داری کے مضبوط احساس کا مظاہرہ کیا ہے جس میں اوپو اور ہواوے جیسی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کی قیادت میں سٹارٹ اپ بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مصر کی 95 فیصد سے زیادہ زمین صحرائی ہے۔ ہم صحرا کے مسئلہ سے نمٹنے کےلئے چین سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
مصطفیٰ نے کہاکہ برکس کے رکن، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) میں شراکت دار اور شنگھائی تعاون تنظیم کے ڈائیلاگ پارٹنر کی حیثیت سے ہم چین سے ان کثیرجہتی لائحہ عمل کے ذریعے تجربہ، تکنیکی معاونت اور مالی مدد حاصل کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ مستقبل میں ریگستان کو کم کیا جاسکے اور زمین کی لچک کو بحال کیا جاسکے۔
مصر اور چین کے درمیان تعاون پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے مصطفیٰ نے چین کے مشترکہ ترقیاتی وژن کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ مغربی طاقتوں کے برعکس جو دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتی ہیں، چین ایک قابل احترام اور قابل اعتماد شراکت دار رہا ہے، جو مفید تعاون کے ذریعے دوسرے ممالک کی مدد کرتا ہے۔
ماہر نے بی آر آئی کی اہمیت پر روشنی ڈالی، جس نے افریقہ، خاص طور پر مصر کو مشترکہ طور پر تعمیر کردہ لاجسٹک انفراسٹرکچر اور چین کے ساتھ تجارتی حجم میں اضافے سے فائدہ اٹھانے کے قابل بنایا ہے۔
