چین کے صدر شی جن پھنگ کا برکس افریقہ آؤٹ ریچ اور برکس پلس ڈائیلاگ میں شریک دیگر رہنماؤں کے ہمراہ گروپ فوٹو۔ (شِنہوا)
بیجنگ(شِنہوا)گزشتہ سال 24 اگست کی صبح جوہانسبرگ کا سینڈٹن کنونشن سنٹر برکس کی تاریخی توسیع کے اعلان پر اس وقت تالیوں سے گونج اٹھا، جب چین کے صدر شی جن پھنگ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ برکس ممالک اور ترقی پذیر ممالک کے متحد ہونے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
برکس کے آغاز کے بعد سے فراخدلی اور شمولیت اس کے ارکان کا مستقل عزم رہا ہے۔ شی جن پھنگ نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ برکس ممالک کسی بند کلب یا مخصوص دائرے میں جمع نہیں ہوتے۔ انہوں نے 2013 میں ڈربن میں برکس سربراہ اجلاس کے آغاز کے موقع پر کہا تھا کہ ”اکیلا ایک درخت جنگل نہیں بنا سکتا”۔ ایک سال بعد برازیل میں فورٹالیزا سربراہ اجلاس میں انہوں نے فراخدلی، شمولیت اور مفید تعاون کے "برکس جذبے” کی تجویز پیش کی۔
اس فراخدلی کے تحت گروپ نے دیگر ارکان کے رہنماؤں کو سربراہ کانفرنس میں مدعو کرنے کی روایت ڈالی۔ پھر 2017 میں چین کے قدیم ساحلی شہر شیامن میں منعقدہ کانفرنس میں شی جن پھنگ نے ’’برکس پلس‘‘ پروگرام پیش کیا اور دیگر ابھرتی مارکیٹوں اور ترقی پذیر ملکوں کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی۔
درحقیقت چین کا جنوبی شہر شیامن وہ جگہ تھی جہاں شی جن پھنگ نے 1985 میں 32 سال کی عمر میں ڈپٹی میئر کی حیثیت سے فرائض سر انجام دئیے۔ اب شی کے اقدامات کے تحت برکس شراکت داری کے لئے جدت طرازی کی بنیاد پر نئے صنعتی انقلاب نے جڑ پکڑ لی ہے۔
گزشتہ برسوں کے دوران دنیا میں اتنی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جو تاریخ میں شازونادر ہی دیکھنے کو ملتی ہیں، چینی صدر نے غیر متزلزل طور پر فراخدلی اور تعاون کی حمایت کی ہے۔ شی نے 2022 میں 14 ویں برکس سربراہ اجلاس میں کہا تھا کہ نئے حالات میں برکس ممالک کے لیے یہ زیادہ اہم ہے کہ وہ کھلے دل کے ساتھ ترقی کو آگے بڑھائیں اور تعاون کو فروغ دیں۔
یکم جنوری 2024 کو مکمل رکن بننے والے ممالک کے علاوہ 30 سے زائد ممالک نے برکس میں شمولیت کیلئے باقاعدہ درخواستیں دی ہیں۔ کئی دیگر ترقی پذیر ممالک بھی گروپ کے ساتھ تعاون کے خواہاں ہیں۔
