سربراہ بی این پی اختر مینگل نے کہا کہ ایک ماہ سے ملک میں ہنگامی صورتحال ہے خفیہ طریقے سے آئینی ترمیم لائی جا رہی ہے،ان کی تمام تر توجہ آئین کی ترمیم پر لگی ہوئی ہے، کون سی ایسی مصیبت آن پڑی کہ راتوں رات ترمیم کرنی پڑ رہی ہے؟، ایسی کون سی ترمیم ہے جسے پبلک کرنے سے حکومت کو شرم آرہی ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم پبلک ہوتی ہیں،ہر شہری کو جاننے کا پورا حق ہے، آئینی دستاویزات کو خفیہ بنا کر چھپایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دستاویزات کا خالق کون ہے؟،کیا حکومت ہے؟ اپوزیشن یا کوئی اور قوتیں؟۔
انہوں نے کہا کہ طاقت کے زور پر آئینی ترمیم کیلئے ووٹ ڈالنا کیا جمہوریت ہے؟،دنیا میں ایسی جمہوریت کی نظیر کہیں نہیں ملے گی۔انہوں نے کہا کہ ممبران پارلیمنٹ کی ماؤں بہنوں کو اٹھا کر یہ آئینی ترمیم کروانا چاہتے ہیں، 1973ء کے آئین میں یرغمالی ترمیم کو بھی شامل کر دیا جائے، بچوں اور خواتین کی چیخ و پکار سے لائی گئی ترمیم کا حصہ نہیں بنیں گے،
میں بیرون ملک تھا مجھ سے رابطہ کیا گیا کہ ہمارا ساتھ دیا جائے میں نے واضح کیا کہ میں تو بیروزگار ہوں استعفیٰ دے چکا ہوں، اس دوران ہمارے دو سینیٹرز کو دھمکایا گیا،ان کے کاروبار تباہ کئے گئے، میں نے کہا ہم نے مشرف دور میں بھی گن پوائنٹ پر مذاکرات نہیں کئے آج مشرف کے جانشین کیساتھ بھی گن پوائنٹ پر مذاکرات نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج بھی ہمارے دو سینیٹرز اور ان کے بیٹے چار،پانچ دن سے غائب ہیں، خاتون سینیٹر کے اہل خانہ کو یرغمال بنا کر ان کو وزیراعظم کے ظہرانے میں بلایا گیا، کیا یہ ووٹ کی عزت ہے؟ اسی ووٹ کی خاطر آپ ہمیں سڑکوں پر لائے؟ وہ خاتون اجلاس میں بات تک نہ کر سکی جس کا شوہر اور بچہ ان کے قبضے میں ہے۔
اختر مینگل نے واضح کیا کہ آئینی ترمیم میں جنت کا راستہ بھی دکھایا جائے تو اس کا حصہ نہیں بنیں گے، ممبران کی واپسی تک ہم کوئی بات نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم بارے اپوزیشن اتحاد سے مشورہ کریں گے ویسے بھی اس ملک میں جمہوریت ہے کہاں؟۔ انہوں نے کہا کہ خاتون سینیٹر نسیمہ احسان کو رات کو 5سے 6لوگ لاجز سے لے گئے،
اب حکومت ان کی ہے یا نہیں اس سوال کا جواب ان سے پوچھیں، حکومت کے سوا بھی مجھے باقی لوگوں کا پیغام ملا ہے۔
