جمعہ, اگست 1, 2025
تازہ ترینچین-امریکہ تجارتی تعلقات میں طویل المدتی استحکام کے لیے مذاکرات ، باہمی...

چین-امریکہ تجارتی تعلقات میں طویل المدتی استحکام کے لیے مذاکرات ، باہمی مفاد اہم ہیں

سویڈن کے اسٹاک ہوم میں چینی نائب وزیر اعظم اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی مرکزی کمیٹی کے سیاسی ادارے کے رکن حہ لی فنگ چین-امریکہ اقتصادی و تجارتی مذاکرات کے ایک نئے دور سے قبل امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ سے مصافحہ کر رہے ہیں۔(شِنہوا)

بیجنگ (شِنہوا) اسٹاک ہوم میں پیر سے منگل تک ہونے والے چین-امریکہ اقتصادی و تجارتی مذاکرات کے تازہ ترین دور میں دونوں فریقین نے باہمی دلچسپی کے اہم موضوعات پر کھل کر تفصیلی اور تعمیری بات چیت کی جس سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ دنیا کی 2سب سے بڑی معیشتیں بات چیت، اختلافات دور کرنے اور عالمی استحکام کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہیں۔

اجلاس میں ہونے والے اتفاق رائے کی بنیاد پر دونوں فریق اس بات کو جاری رکھنے پر زور دیں گے کہ امریکی فریق کی طرف سے 24 فیصد اضافی  ٹیکس پر 90 دن کے لیے  وقفہ میں توسیع کی جائے اور اسی طرح چینی فریق کی جانب سے جوابی اقدامات بھی جاری رکھے جائیں۔

مذاکرات میں حاصل ہونے والی پیش رفت ایک بار پھر اس بات کا ثبوت ہے کہ جب تک دونوں فریقین سربراہان مملکت کے درمیان طے پانے والے اہم اتفاق رائے کی پیروی کرتے رہیں گے اور برابری کی بنیاد پر مذاکرات اور مشاورت کے اصول کو برقرار رکھیں گے، وہ مئوثر طریقے سے اختلافات کو دور کر سکتے ہیں، باہمی اعتماد کو فروغ دے سکتے ہیں اور دوطرفہ معاشی و تجارتی تعلقات کو ایک صحت مند، مستحکم اور پائیدار سمت کی جانب لے جا سکتے ہیں۔

مذاکرات کے دوران چین نے اس بات پر زور دیا کہ چین-امریکہ اقتصادی و تجارتی تعلقات کی اصل بنیاد باہمی مفاد ہے، چین اور امریکہ تعاون سے فائدہ اور محاذ آرائی سے نقصان اٹھاتے ہیں، امریکی فریق نے بھی کہا کہ امریکہ-چین اقتصادی و تجارتی تعلقات کا استحکام دونوں ممالک کی معیشتوں اور مجموعی طور پر دنیا کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔

سویڈن کے اسٹاک ہوم میں چین کی وزارت تجارت کے بین الاقوامی تجارتی نمائندے اور نائب وزیر تجارت لی چھنگ گانگ چین اور امریکہ کے درمیان ہونے والے اقتصادی و تجارتی مذاکرات کے نئے دور کے بعد پریس بریفنگ دے رہے ہیں۔(شِنہوا)

یہ باہمی اعتراف ایک اہم بنیاد فراہم کرتا ہے جس نے دونوں فریقوں کو ایک ساتھ بیٹھنے، بامعنی مذاکرات کرنے اور ٹھوس پیش رفت حاصل کرنے کے قابل بنایا۔

عالمی سطح پر 2 سب سے بڑی معیشتیں کئی دہائیوں سے جامع طور پر ایک دوسرے سے جڑی رہی ہیں جن کے درمیان وسیع تر مشترکہ مفادات اور اقتصادی و تجارتی شعبے میں تعاون کے بے پناہ امکانات موجود ہیں، اس قدر مضبوط اقتصادی ہم آہنگی کو کسی بھی مصنوعی محصولاتی رکاوٹوں سے آسانی سے توڑا نہیں جا سکتا۔

چین مکمل خلوص نیت کے ساتھ مشاورت میں حصہ لیتا ہے جبکہ اپنے ناقابل سمجھوتہ اصولوں پر مضبوطی سے قائم رہتا ہے اور مسلسل اس بات پر زور دیتا ہے کہ ایک دوسرے کے بنیادی خدشات کا احترام ضروری ہے۔

امریکہ کی طرف سے یکطرفہ طور پر عائد کردہ اضافی ٹیکس پر چین کا موقف واضح اور مستقل ہے، یہ بنیادی طور پر یکطرفہ پن اور تحفظ پسندی کے ایسے اقدامات ہیں جو عالمی تجارتی تنظیم  کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

چین اختلافات کو مناسب طریقے سے حل کرنے ، بات چیت اور مشاورت  کے ذریعے حل تلاش کرنے کے لیے تیار ہے لیکن یہ بات چیت برابری کی بنیاد پر ہونی چاہیے، چین کا ترقی کا حق ناقابل تنسیخ ہے اور اپنے بنیادی مفادات اور ترقیاتی حقوق کے تحفظ کے لیے اس کا عزم غیر متزلزل ہے، اصولی معاملات پر چین پر دباؤ ڈال کر رعایتیں لینے کی کوئی بھی کوشش غیر حقیقی ہے۔

چین-امریکہ اقتصادی و تجارتی تعلقات میں بعض گہرے مسائل ایسے ہیں جو فوری طور پر حل نہیں ہو سکتے لیکن حقیقی پیش رفت ہمیشہ عملی اقدامات سے ہی شروع ہوتی ہے۔امید کی جاتی ہے کہ امریکہ بھی چین کے ساتھ اسی سمت میں آگے بڑھے گا اور دونوں سربراہان مملکت کے درمیان طے پانے والے اہم اتفاق رائے اور مذاکرات کی مثبت پیش رفت کو عملی اقدامات میں تبدیل کرے گا۔

ایسا کرنے سے دونوں ممالک نہ صرف اپنے اقتصادی تعلقات کو مستحکم کر سکتے ہیں بلکہ باہمی اعتماد کو فروغ دے کر غلط فہمیوں میں کمی، تعاون میں اضافہ اور تعلقات کو جلد ایک مثبت اور مستحکم راستے پر واپس لا سکتے ہیں۔

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!