اتوار, جولائی 27, 2025
پاکستاناسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے کیلئے ججز کے تبادلے کیے گئے، منیر...

اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے کیلئے ججز کے تبادلے کیے گئے، منیر اے ملک

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلے سے متعلق کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، 5 درخواستگزار ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے حکومتی سمری کو تضادات اور قانونی سقم سے بھرپور قرار دیا۔ کہا کہ سمری عدلیہ کے ذریعے بھجوائی گئی نہ اُس سے مشاورت ہوئی، جسٹس عامرفاروق، جسٹس بابر ستار اور جسٹس اعجاز اسحاق پنجاب کے ڈومیسائل سے ہیں، متناسب نمائندگی کے اصول کو جواز بناکر طے شدہ منصوبے کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے کیلئے ججز کے تبادلے کیے گئے۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلے سے متعلق کسی کی سماعت ہوئی، ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 200 کا ذیلی سیکشن ایک، سیکشن دو سے الگ نہیں بلکہ اس سے جڑا ہوا ہے اور جج کا تبادلہ ایک ایگزیکٹو ایکشن ہے، سوال اس اختیار کے استعمال کا ہے۔

دوران سماعت منیر اے ملک نے قاضی فائز عیسٰی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ عدالتی امور سے متعلق صدر کو آزادانہ مائنڈ اپلائی کرنا چاہئے، ججز ٹرانسفر کی سمریوں سے عیاں ہوتا ہے صدر مملکت اور وزیراعظم نے ایک ہی دن منظوری دی۔

ان کا کہنا ہے کہ ججز ٹرانسفر کیلئے وزارت قانون  وانصاف کی تضادات سے بھرپور سمری عدلیہ کے ذریعے بھجوائی گئی نہ اُس سے مشاورت ہوئی، اس وقت حلف یا سینارٹی کا ذکر بھی نہیں تھا، متناسب نمائندگی کے اصول کو جواز بنایا گیا حالانکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس عامر فاروق، جسٹس بابر ستار اور جسٹس اعجاز اسحاق پنجاب کے ڈومیسائل سے تھے۔

منیر اے ملک نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور چیف جسٹس پاکستان کو الگ الگ خطوط میں کہا گیا کہ اسلام آباد میں سندھ سے کوئی جج تعینات نہیں، حالانکہ جسٹس ثمن رفعت کا تعلق کراچی سے ہے، طے شدہ منصوبے کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے کیلئے ججز ٹرانسفر کیے گئے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے نشاندہی کی کہ جس رول 60 کا حوالہ دیا گیا وہ ممکنہ طور پر ٹرانسفر سے متعلق نہیں، جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ ابتدائی سمری میں "اندرون سندھ” کا ذکر تھا اور کراچی کو الگ سے لکھا جاتا ہے، ممکن ہے یہ غلطی لاعلمی میں ہوئی ہو۔

منیر اے ملک نے ان غلطیوں کو حکومت کی نااہلی اور غیر سنجیدگی قرار دیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی سمیت 5 درخواستگزار ججز نے وفاقی حکومت کے جواب پر اپنا نیا تحریری جواب بھی جمع کرا دیا۔

جواب میں کہا گیا کہ وفاق نے ججز ٹرانسفر پر غلط بیانی سے کام لیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ یں تمام صوبوں کی نمائندگی نہیں، چیف جسٹس کو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ نئے ججز حلف کے بغیر عہدہ سنبھالیں گے، جسٹس عامرفاروق کا نام سپریم کورٹ کیلئے تجویز ہونے کے فوراً بعد تبادلے معنی خیز ہیں۔

آئینی بینچ نے کیس کی سماعت 7 مئی تک ملتوی کردی گئی۔

انٹرنیوز
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!