واٹر اسٹونز برطانیہ میں کتابوں کا ایک مشہور اور معتبر برانڈ ہے جو شہری علاقوں کی شاندار گلیوں سے لے کر خوبصورت مضافاتی علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ صرف ایک دہائی پہلے کی بات ہے کہ یہ ادارہ دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ اس وقت ای ریڈنگ (ڈیجیٹل کتابوں) کے بڑھتےہوئے رجحان نے روایتی کتابوں کی دنیا کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ اس کے احیاء کا سہرا ایک شخصیت کو جاتا ہے جو درست مقام پر درست کتابوں کی دکان قائم کرنے کے اصول پر کاربند تھے۔
جیمز ڈانٹ، واٹر اسٹونز کے منیجنگ ڈائریکٹر اور امریکہ میں بارنز اینڈ نوبل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔ وہ دو مختلف براعظموں میں واقع کتابوں کی دو بڑی دکانوں کے سلسلے کے سربراہ بھی ہیں۔ وہ کتابوں کی دکانوں کے پرجوش حامی ہیں۔
17 اپریل کو لندن کے علاقے پِکڈیلی پر واقع واٹر اسٹونز کے فلیگ شپ سٹور میں شنہوا کو دئیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ کتابوں کی دکانیں سب کے لئے ہیں۔
ساؤنڈ بائٹ 1 (انگریزی): جیمز ڈانٹ، منیجنگ ڈائریکٹر، واٹر اسٹونز
’’ ہم اپنے کتاب فروشوں کو اور ہر دکان کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ اپنی جگہ اور اپنی دکان کے لحاظ سے جو بہتر سمجھیں فیصلہ کر لیں۔ پیشہ ورانہ عزم کے حوالے سے ہماری یہ توجہ ہی ہمارے سٹورز کی کامیابی کا اصل راز ہے۔‘‘
ڈانٹ نے سال 1990 میں لندن کی میری لیبون ہائی اسٹریٹ پر کتابوں کی اپنی پہلی دکان کھولی تھی۔ اس مقصد کے لئے انہیں جے پی مورگن میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کو الوداع کہنا پڑا تھا۔
سال 2011 میں ڈانٹ نے اسی آزاد سوچ کو واٹر اسٹونز میں اس وقت شامل کیا جب ایمازون کے کنڈل جیسے ڈیجیٹل ریڈرز روایتی کتابوں کی دکانوں کو ختم کرنے کے قریب تھے۔ ان کے ابتدائی اقدامات میں سے ایک یہ ثابت کرنا تھا کہ یہ سوچ ہی غلط ہے۔
اس یقین کے ساتھ کہ ہر دکان کو اپنی پہچان بنانی چاہئے، ڈانٹ نے دکانوں کے منیجرز کو مزید خود مختاری دے دی۔انہوں نے یکساں لے آؤٹ اور پروموشن پلان ختم کر دیئے۔ ہر دکان کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ خود فیصلہ کرے کہ اس نے کون سی کتابیں رکھنی ہیں اور انہیں کیسے پیش کرنا ہے۔
ایک اور بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب ڈانٹ نے پبلشرز کے لئے شیلف اسپیس کے پرانے طریقے کو ختم کر دیا۔ یہ ایسا طریقہ کار تھا جو اکثر غیر فروخت شدہ اور واپس آنے والے ذخیرے کو بڑھا رہا تھا۔ واٹر اسٹونز نے فیصلے کا اختیار کتب فروشوں اور ان کے گاہکوں کے حوالے کر دیا۔ اس طرح سال 2023 تک پبلشرز کو کتابوں کی واپسی تقریباً 9 فیصد رہ گئی حالانکہ گزشتہ برسوں میں اس کی شرح 30 سے 40 فیصد تک ہوا کرتی تھی۔ اس کے بعد بارنز اینڈ نوبل نے بھی اپنے ہاں اسی طرح کی اصلاحات کو نافذ کیا ہے۔
ای ریڈرز کی پریشانی سے نمٹنے کے بعد آج کل کتابوں کی دکانیں سوشل میڈیا سے توجہ کے ہٹنے کے چیلنج سے گزر رہی ہیں۔ پھر بھی ڈانٹ پُرامید ہیں۔
ساؤنڈ بائٹ 2 (انگریزی): جیمز ڈانٹ، منیجنگ ڈائریکٹر، واٹر اسٹونز
’’ جب میں بڑا ہو رہا تھا، اس وقت لوگ کہا کرتے تھے کہ ہماری آنکھیں مربع ہو گئی ہیں کیونکہ ہم ہر وقت ٹی وی دیکھتے تھےاور اسی وجہ سے ہم کبھی کتابیں نہیں پڑھیں گے۔یہ ایک احمقانہ سوچ تھی۔ یہی کہانی ہے جسے ہم اس وقت آئی پیڈ، آئی فون اور سوشل میڈیا پر لاگو کر رہے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ’بچے نہیں پڑھتے، بچے تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتے، بچوں کا دھیان بٹا ہوا ہے،بچے بس بچے ہی ہیں۔‘ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے، بچے ایسے نہیں ہیں۔ وہ کتابوں اور خیالات کے ساتھ شاندار طریقے سے جڑے ہوئے ہیں اور ان سے جڑے جوش و جذبے میں حصہ لے رہے ہیں۔ وہ ان دیگر ذرائع ابلاغ کو اپنی پڑھائی کے تجربات میں ضم کر رہے ہیں۔ اسی لئے آج ہمارے پاس پہلے سے زیادہ کتابوں کی دکانیں ہیں۔ ٹِک ٹاک تو ہمارے لئے خاص طور پر ایک شاندار ذریعہ ثابت ہوا ہے۔ ہم اس کو استعمال کر کے اپنی دکانوں کی توانائی اور تجربے کو صحیح معنوں میں ظاہر کر سکتے ہیں۔ یہ نوجوان بچے اس کام کو شاندار طریقے سے کر رہے ہیں۔ ہم ایک ایسا مقام بن چکے ہیں جہاں سوشل میڈیا کے ذریعے پڑھنے، کتابوں سے جڑنے اور ان کے بارے میں جوش و خروش کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعےبیسٹ سیلر کتابوں کو ایسے فروغ ملاہے جیسا انہیں اس سے پہلے کبھی کسی چیز کے ذریعے فروغ نہیں ملا تھا۔‘‘
ڈانٹ حال ہی میں چین کے جنوب مغربی صوبہ سیچھوان کے دارالحکومت چھنگ دو گئے۔ وہاں ان کا یہ جذبہ پھر سے تازہ ہوا ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 3 (انگریزی): جیمز ڈانٹ، منیجنگ ڈائریکٹر، واٹر اسٹونز
’’ میں چھنگ دو گیا۔ وہاں کی دکانوں کا مقصد بہت شاندار تھا۔ ان کے محل وقوع، فن تعمیر، ڈیزائن، پیشکش اور جس روانی سے یہ سب کچھ ہو رہا تھا وہ واقعی غیر معمولی تھا۔ ہم نے ان میں سے کافی چیزیں اپنائی ہیں اور آج واٹر اسٹونز میں ان کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ دکان ہے جہاں ہم نے نیچے کی سیڑھیاں استعمال کیں۔ جب ہم تقریبات منعقد کرتے ہیں تو یہ ایک ایمفی تھیٹر بن جاتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو ہم نے سطحوں میں تبدیلی کے ذریعے نشستیں بنانے کی تحریک سے ادھار لی ہے۔ یہ نشستیں راستوں کے ساتھ رکھی جاتی ہیں۔‘‘
لندن سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link