چین کے جنوبی صوبے گوانگ ڈونگ کے شہر ڈونگ گوان میں ذہین روبوٹکس کے صوبائی ادارے میں ایک زیرآب ذہین روبوٹ کا معائنہ کیا جارہاہے-(شِنہوا)
بیجنگ(شِنہوا)بیجنگ میں طبی آلات بنانے والی کمپنی میں ایک سرجیکل روبوٹ نے نہایت احتیاط سے بٹیر کے ایک کچے انڈے کا چھلکا اس کی اندرونی جھلی کو نقصان پہنچائے بغیر اتارا۔ اسی دوران ایک کمرشل خلائی ادارے میں انجینئرز تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے راکٹ کے پرزے تیار کر رہے تھے۔
چین کے جنوبی صوبے گوانگ ڈونگ میں 2 ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر زیر آب روبوٹس آلات کی دیکھ بھال اور ہنگامی کارروائی انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ ڈرونز مستحکم توانائی کی فراہمی کے تحت24 گھنٹے کی طویل پرواز کا ہدف حاصل کر چکے ہیں۔
یہ مناظر چین کی حالیہ پیش رفت کو اجاگر کرتے ہیں، جس میں سائنس و ٹیکنالوجی کی اختراع کو صنعتی اختراع کے ساتھ جوڑنے کا عمل تیز کیا گیا ہے اور یہ اعلیٰ معیار کی ترقی کے حصول میں قابل ذکر کامیابیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
جنوری سے مئی 2025 کے دوران چین کی موثر اختراعی ملکیتی ایپلیکیشنز کی تعداد تقریباً 50 لاکھ تک پہنچ گئی، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 12.8 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتی ہے۔ اسی عرصے میں تزویراتی اہمیت کی حامل بڑی ابھرتی ہوئی سروس کمپنیوں کی آمدنی میں بھی تقریباً 10 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اعلیٰ ٹیکنالوجی کے بڑے صنعت کاروں کی ویلیو ایڈڈ صنعتی پیداوار میں پہلی ششماہی کے دوران 9.5 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
اس شاندار پیش رفت کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے؟ اور آئندہ اس انضمام کو فروغ دینے کے لئے کیا اقدامات کئے جائیں گے؟ شِنہوا نیوز ایجنسی کے زیر اہتمام چائنہ اکنامک راؤنڈٹیبل کے تازہ ترین آل-میڈیا ٹاک شو میں اس موضوع پر روشنی ڈالی گئی جہاں صنعتی اور سائنسی حکام، ایک قومی اختراعی مرکز کے ڈائریکٹر اور ایک ہائی ٹیک کمپنی کے شریک بانی نے اپنے تجربات اور خیالات کا تبادلہ کیا۔
قومی اختراعی مرکز برائے ایکسیلنس(این آئی سی ای)کے ڈائریکٹر لیو چھنگ کے مطابق ایک ایسا چینی ادارہ جو سائنسی ایجادات کو عملی شکل دینے اور انہیں صنعتی بنیادوں پر ڈھالنے پر کام کرتا ہے، کے لئے یہ سال اب تک غیر معمولی طور پر مصروف رہا ہے۔
انہوں نے راؤنڈ ٹیبل میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چین میں صنعتی ترقی کی خاطر مارکیٹ کے امکانات واقعی غیر ملکی سائنس دانوں کے لئے بہت پرکشش ہیں۔
چین کی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ایک عہدیدار چھن ہاؤ یوآن نے کہا کہ چین کا بطور ایک اہم عالمی اختراعی مرکز اثر و رسوخ مسلسل بڑھ رہا ہے اور وہ عالمی سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں محض ایک شریک اور معاون کے بجائے اب ایک علمبردار اور رہنما کے طور پر تیزی سے ابھر رہا ہے۔
بیجنگ میں قائم ایک تجارتی خلائی کمپنی گلیکسی سپیس کے شریک بانی اور نائب صدر گاؤ چھیان فینگ کے مطابق سائنسی کامیابیوں کو تجارتی مصنوعات میں بدلنے کا راز چین کے مضبوط صنعتی نظام میں پوشیدہ ہے۔
