اتوار, جولائی 27, 2025
تازہ ترینبرطانوی شہری کی چین میں غیر مادی ثقافتی ورثے کے فنون سیکھنے...

برطانوی شہری کی چین میں غیر مادی ثقافتی ورثے کے فنون سیکھنے کی جستجو!

’’ تمام لوگوں کو ہیلو! میں جیمز ہوں۔ میں برطانیہ سے یہاں آیا ہوں۔ تقریباً 16 سال ہو گئے ہیں کہ میں چھانگدے میں رہتا ہوں۔ میری بیوی چھانگدے کی رہنے والی ہے۔ میرا بیٹا بھی چھانگدے کا مقامی باشندہ ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں بھی چھانگدے کا رہائشی ہوں۔ میں چھانگدے کی مقامی زبان میں تھوڑی بہت بات کر سکتا ہوں۔ آئیے مجھے کوشش تو کرنے دیں۔ چھی لے می (کیا آپ نے کھانا کھا لیا؟) ڈینگ یی شیا (ایک لمحے کے لئے رک جائیں)۔‘‘

اسٹینڈ اپ 1 (انگریزی): ژانگ نان، نمائندہ شِنہوا

’’ رک جائیں۔ چھانگدے کا اصل باشندہ بننے کے لئے آپ کو یہاں کی ثقافت سے متعلق جاننے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر’لی چاء‘ چھانگدے کے غیر مادی ثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ مشروب کیسے تیار کیا جاتا ہے؟

ساؤنڈ بائٹ 2 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’ ایمانداری کی بات یہی ہے کہ مجھے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔‘‘

اسٹینڈ اپ 2 (انگریزی): ژانگ نان، نمائندہ شِنہوا

’’ اس لئےآپ کے لئے مشکل ہے: غیر مادی ثقافتی ورثے کے تین کام مکمل کریں۔ اگر آپ ایسا کر لیتے ہیں تو میں اسی صورت آپ کو چھانگدے کا مقامی باشندہ کہوں گا۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 3 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’ کیا آپ تیار ہیں۔ ٹھیک ہے، آئیے چلتے ہیں۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 4 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’ لی چاء کیسے تیار کیا جاتا ہے؟‘‘

ساؤنڈ بائٹ 5 (چینی): وین فینگ، چھانگدے کی ’لی چاء‘ کا وارث

’’ ہم اس کے لئے 5 اہم اجزاء لیتے ہیں۔ کچے چاول، ادرک، چائے کے تازہ پتے، تل اور مونگ پھلی۔ ہم انہیں پیس کر ملاتے ہیں اور پھر ایک برتن میں اُبال لیتے ہیں۔ لیجئے اب یہ تیار ہے۔ آپ اسے براہ راست پیش کر سکتے ہیں۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 6 (چینی): وین فینگ، چھانگدے کی ’لی چاء‘ کا وارث

’’ ایک پیالی لی چاء پیسنے میں تقریباً 20 سے 30 منٹ لگتے ہیں۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 7 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’ 20 منٹ؟ منٹ؟ تو محنت سے اچھی لی چاء تیار ہو جاتی ہے۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 8 (چینی): وین فینگ، چھانگدے کی ’لی چاء‘ کا وارث

’’ جی ہاں‘‘

ساؤنڈ بائٹ 9 (چینی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’اس کا ذائقہ بہت اچھا ہے۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 10 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’ کون سے روایتی کھانے ’لی چاء‘ کے ساتھ  پیش کئے جاتے ہیں؟‘‘

ساؤنڈ بائٹ 11 (چینی): وین فینگ، وین فینگ، چھانگدے کی ’لی چاء‘ کا وارث

’’ یہاں ہمارے پاس 108 قسم کے سائیڈ سنیک اور دیگر ڈشز ہیں جو لی چاء کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 12 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’ کیا یہاں کوئی نئی قسم کی ’لی چاء‘ ہے جسے ہم اپنے ساتھ  باہر لے جا کر پی سکتے ہیں۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 13 (چینی): وین فینگ، چھانگدے کی ’لی چاء‘ کا وارث

’’ ہم نے لی چاء کی ایک نئی قسم متعارف کرا دی ہے۔ 5 روایتی اجزاء پیسنے کے بعد ہم اس میں کچھ جدید ذائقے یعنی چمبیلی، سیب یا لیموں کو بھی شامل کرلیتے ہیں۔ اس تخلیقی اندازنے ’لی چاء‘ کو نوجوان نسل کے لئے زیادہ پُرکشش بنا دیا ہے۔‘‘

اسٹینڈ اپ 3 (انگریزی): ژانگ نان، نمائندہ شِنہوا

’’ اس طرح پہلا ہدف تو مکمل ہو گیا ہے۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 14 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’ بہت عمدہ۔ یہ آواز کیسی ہے؟‘‘

اسٹینڈ اپ 4 (انگریزی): ژانگ نان، نمائندہ شِنہوا

’’ یہ چھانگدے کی تار موسیقی ہے۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 15 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’ یہ آواز دلچسپ لگتی ہے۔ مجھے موسیقی سے پیار ہے۔ کیا یہی دوسرا ہدف ہے؟ ‘‘

اسٹینڈ اپ 5 (انگریزی): ژانگ نان، نمائندہ شِنہوا

’’ جی ہاں، یہ آپ کا دوسرا ہدف ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ آپ کے پاس کیا ہے!‘‘

آخری منگ دور (1644-1368) اور ابتدائی چنگ دور (1911-1644) کے دوران چین کے مشرقی علاوں جیانگسو اور ژے جیانگ کے لوک گیتوں کے  چھانگدے کی مقامی لوک موسیقی سے ہم آہنگ ہونے سےچھانگدے تار موسیقی کا آغاز ہوا۔

 تار کے سازوں اور چھانگدے کےلہجے کا امتزاج پیش کرنے والا یہ فن قومی سطح پر غیر مادی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

ساؤنڈ بائٹ 16 (چینی): دوان شن یی، فنکار، چھانگدے تار موسیقی

’’ چھانگدے ایک زبردست جگہ ہے۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 17 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

اب کس قسم کے لوگ چھانگدے کی تار بجا گا رہے ہیں؟‘‘

ساؤنڈ بائٹ 18 (چینی): دوان شن یی، فنکار، چھانگدے تار موسیقی

’’ چھانگدے میں جوان ہوں یا بوڑھے، مرد ہوں یا عورتیں، سب لوگ چھانگدے کی تار موسیقی کی ایک یا دو لائنیں گاسکتے ہیں۔ اسے ثقافتی تبادلے کے ذریعے غیر ملکی ناظرین کے ساتھ بھی شیئر کیا گیا ہے۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 19 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’آپ کا میرے گانے کے بارے میں کیا خیال ہے؟

اسٹینڈ اپ 6 (انگریزی): ژانگ نان، نمائندہ شِنہوا

’’ آپ نے دوسرا کام بھی کامیابی سے مکمل کر لیا۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 20 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’ یہ بہت حیران کن بات ہے۔ میں نے آپ کے ہاتھ میں خوبصورت پنکھا دیکھا ہے۔ وہ کیا ہے؟‘‘

اسٹینڈ اپ 7 (انگریزی): ژانگ نان، نمائندہ شِنہوا

’’ یہ ثقافتی ورثہ کے مالک لی جیان ینگ کی فلیکس لینن پینٹنگ ہے۔ یہ آپ کا تیسرا ٹاسک ہے۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 21 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’ یہ میرا تیسرا ٹاسک ہے؟‘‘

اسٹینڈ اپ 8 (انگریزی): ژانگ نان، نمائندہ شِنہوا

’’ جی ہاں‘‘

ساؤنڈ بائٹ 22 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’ آیئے ، پھر چلتے ہیں۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 23 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’ چپکنے والے برش کے استعمال اور ایک پینٹنگ پر برش لگانے میں کیا بڑے فرق ہوتے ہیں؟۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 24 (چینی): لی جیان ینگ، فلکس لینن پینٹنگ کا وارث

’’ پینٹنگز کے دوسرے طریقوں میں رنگ لگانے کے لئے برش استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم ان کے برعکس فلیکس لینن پینٹنگ میں آرٹ ورک کی تخلیق کے لئے اپنے ہاتھوں سے فلیکس فائبرز کو چٹکانا، مروڑنا اور چھڑکنا شامل ہے۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 25 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’ فلیکس پینٹنگز کے حوالےسے غیر ملکی مہمان اور سیاح کس چیز میں سب سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں؟‘‘

ساؤنڈ بائٹ 26 (چینی): لی جیان ینگ، فلکس لینن پینٹنگ کا وارث

’’ یہ منفرد تکنیک ہے جو 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ سے چین کی ثقافت کا حصہ رہی۔ یہ تکنیک اب ایک نمایاں اور نمائندہ آرٹ فارم کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس کے تصورات اکثر چین کی روایتی ثقافت کے عناصر کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 27 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’ مجھے اس میں کتنا وقت لگے گا کہ میں بھی کچھ آپ جیسا اچھا بن جاؤں؟ کسی کو یہ مہارت سیکھنے میں ویسے کتنا وقت لگتا ہے۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 28 (چینی): لی جیان ینگ، فلکس لینن پینٹنگ کا وارث

’’ وہ ابتدائی لوگ جو پینٹنگ کا پس منظر نہیں رکھتے، ان کے لئے فلیکس لینن پینٹنگ سیکھنا حیران کن طور پر تیز اور آسان ہے۔ تاہم اس فن میں مکمل مہارت کے حصول اور حقیقی معنوں میں ایک شاندار تخلیقی نمونہ تیار کرنے کے لئے وقت، صبر اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی صورت مہارتوں میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 29 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’ میرا کام کیسا ہے؟ کیا میں کامیاب ہو گیا ہوں؟‘‘

اسٹینڈ اپ 9 (انگریزی): ژانگ نان، نمائندہ شِنہوا

’’ آپ نے اچھا کام کیا۔ آپ نے تیسرا ہدف کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 30 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’ کیا میں نے تیسرا ہدف مکمل کرلیا؟‘‘

اسٹینڈ اپ 10 (انگریزی): ژانگ نان، نمائندہ شِنہوا

’’ جی ہاں‘‘

اسٹینڈ اپ 11 (انگریزی): ژانگ نان، نمائندہ شِنہوا

’’ تو، جیمز، حقیقت میں چھانگدے کا مقامی باشندہ بننے کے لئے آپ کو گھر پر مزید مشق کرنے کی ضرورت ہو گی۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 31 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’ جی ہاں۔ میں نے آج ہیجی میں غیر مادی ثقافتی ورثہ کی 3 عملی مشقیں کی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ چھانگدے کا مقامی بننا حقیقت میں کافی مشکل ہے۔‘‘

اسٹینڈ اپ 12 (انگریزی): ژانگ نان، نمائندہ شِنہوا

’’ بالکل یہی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو بار بار واپس آنا ہوگا۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 32 (انگریزی): جیمز ایلروئے ایڈنگٹن، استاد، ہونان یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس

’’ یہ میرے لئے خوشی کا موقع ہے۔‘‘

چھانگدے، چین سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!