عدالت نے جی ایچ کیو حملہ کیس میں عمران خان کی ٹرائل روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیںکہ ٹرائل منتقلی سے متعلق پنجاب حکومت کے نوٹیفکیشن کی معطلی تک عدالتی کارروائی نہیں رک سکتی، 2 درخواستوں پر عدالت فیصلہ دے چکی، حیرانی ہے آپ پڑھتے ہی نہیں۔
ہفتے کو اے ٹی سی راولپنڈی میں عمران خان کی جی ایچ کیو حملہ کیس میں ٹرائل روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ وکیل فیصل ملک نے مو قف اپنایا کہ بانی پی ٹی آئی گزشتہ 2 سماعتوں میں نہ کسی گواہ کو دیکھ سکے اور نہ اپنے وکیل کو سن سکے، ملزم کی غیر موجودگی میں ٹرائل کا حصہ نہیں بن سکتے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت کی اجازت سے بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات ہوئی، بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ عدالت میں کیا ہورہا ہے؟۔ فیصل ملک نے کہا کہ استدعا ہے کہ ٹرائل کی منتقلی سے متعلق نوٹیفکیشن پر ہائیکورٹ کے فیصلے تک ٹرائل روکا جائے، ہم بائیکاٹ کی بات نہیں کررہے، ہمارا مطالبہ ہے ملزم کہاں ہے؟، ہم نے ٹرائل روکنے کی درخواست بانی پی ٹی آئی کی ہدایات پر دائر کی ہے، درخواست پر بانی پی ٹی آئی کا سینئر پینل دلائل دے گا۔
انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو ٹرائل میں لے آئیں ہم تعاون کیلئے تیار ہیں۔ انہوںنے بتایا کہ بانی نے کہا ہے کہ ہر سماعت سے قبل ان کے وکلاء ان سے مشاورت کریں، ملزم کا کہنا ہے اس کا حق ہے کہ وہ گواہ کو سن سکے۔عمران خان کے وکیل ملک وحید انجم نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے کا لیڈ کونسل میں ہوں، سلمان اکرم راجا کی ہدایت ہے گواہوں پر جرح میں کروں گا۔
پراسیکیوٹر ظہیر شاہ نے کہا کہ ہم اب بھی وکلائے صفائی کی درخواست پر دلائل کیلئے تیار ہیں، ملزم نے 2023ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی کہ ان کے مقدمات میں حاضری ویڈیو لنک پر کی جائے، ملزم لاہور کے مقدمات میں وڈیو لنک حاضری کے خلاف ہائیکورٹ گیا تھا، لاہور ہائی کورٹ بھی ویڈیو لنک ٹرائل کی اجازت دے چکی ہے۔ پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ 2023 ء میں قانون شہادت میں ترمیم کے بعد ویڈیو لنک کی وضاحت کردی گئی ہے، ویڈیو لنک کیلئے تمام ایپلیکیشنز کو استعمال کرنے کی اجازت ہے، 5قوانین ملزم کی ویڈیو لنک حاضری کی اجازت دیتے ہیں، اے ٹی اے کی دفعہ 21بھی ویڈیو لنک حاضری کی اجازت دیتا ہے، ملزم اگر وڈیو لنک پر بار بار توہین عدالت کرے تو اس کی آواز سنانا ضروری نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملزم کا 342 کے بیان کے وقت عدالت حاضری ضروری ہے۔ پشاور ہائیکورٹ کا حکم ہے کہ عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کی صورت میں وکلائے صفائی وکالت نامے سے دست بردار ہوں، بائیکاٹ کرنا کورٹ کو ہائی جیک کرنے کے مترادف ہے، بار بار بائیکاٹ پر وکلائے صفائی کے خلاف پنجاب بار کونسل کو ریفرنس بھی بھیجا جاسکتا ہے۔ دورانِ سماعت وکلائے صفائی و پراسیکیوشن ٹیم کے مابین تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
وکلائے صفائی نے کہا کہ ہم اس طرح ٹرائل نہیں چلنے دیں گے جس پر پراسیکیوٹر اکرام امین منہاس نے کہا کہ کیس کا ٹرائل کسی صورت نہیں روکا جاسکتا، وکلائے صفائی نے 2ہفتوں سے عدالت میں ڈراما لگایا ہوا ہے یہ دلائل کی بجائے سیاسی تقریریں کرتے ہیں۔ ملزم اسلام آباد ہائیکورٹ، سپریم کورٹ، دیگر ہائی کورٹس میں الگ الگ بیانات دیتا ہے، سندھ ہائی کورٹ نے بھی کہا ہے کہ عدالت کو یرغمال نہیں بنایا جاسکتا۔
بعد ازاں عدالت نے بانی پی ٹی آئی کی ٹرائل روکنے کی استدعاء مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جب تک ٹرائل منتقلی سے متعلق پنجاب حکومت کا نوٹیفکیشن معطل نہیں ہوگا، عدالتی کارروائی نہیں رک سکتی۔ نوٹیفکیشن جاری کرنا حکومت کا کام ہے، آپ کی 2 درخواستوں پر عدالت فیصلہ دے چکی ہے، حیرانی ہے آپ پڑھتے ہی نہیں۔
ذرائع کے مطابق دوران سماعت استغاثہ کے 3گواہان ڈی ایس پی اکبر عباس، انسپکٹر عصمت کمال اور انسپکٹر تہذیب الحسن کے بیانات بھی ریکارڈ کئے گئے۔ عدالت نے 8گواہان کو دوبارہ طلب کرنے بارے دائر درخواست پر پراسیکیوشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 30ستمبر تک ملتوی کردی۔
