اٹلی کے علاقے مارکے کی خاموش پہاڑیوں میں واقع شہر میسراتا ایک ایسے تاریخی ورثے کا امین ہے جو اس کی دلکش گلیوں سے کہیں آگے تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ شہر اطالوی مبلغ ماتھیو رِچی کا آبائی شہر ہے جو 17ویں صدی میں مشرق اور مغرب کے درمیان ثقافتی پل سمجھی جانے والی بااثر ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔
شہر میں آج بھی رِچی کی موجودگی محسوس کی جا سکتی ہے۔ سیاح "ماتھیو رِچی کی سیر” کے لئے مخصوص راستے پر چل کر اس کے نام سے منسوب مقامات دیکھ سکتے ہیں۔ اس راستے کے بیچوں بیچ "لی ما دو چوک” ہے جسے رِچی کے چین سے تعلق کے اعزاز میں چینی پین یِن کے مطابق نام دیا گیا ہے۔
چوک کے وسط میں نصب نمایاں یادگار کانسی کا ایک مجسمہ ہے جس کا عنوان ہے "رِچی اور ژو کی راستے پر گفتگو”۔ اس میں رِچی کو کنفیوشس کے لباس میں دکھایا گیا ہے، وہ ہاتھ کے اشارے سے بات کر رہے ہیں جبکہ چین کے سائنسدان ژو گوانگ چی پوری توجہ سے سن رہے ہیں۔ مجسمے کے نیچے نصب تختی پر دونوں کو "17ویں صدی کے 2 دانشور، چین اور یورپ کی تہذیبوں کی بامعنی ملاقات کے پیش رو” قرار دیا گیا ہے۔
یہ مجسمہ شنگھائی انسٹی ٹیوٹ آف ویژوئل آرٹس کے یانگ ڈونگ بائی نے تخلیق کیا جسے فادر ماتھیو رِچی انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کی جانب سے مئی میں عوام کے سامنے بطور تحفہ پیش کیا گیا۔
ساؤنڈ بائٹ 1 (چینی): یانگ ڈونگبائی، مجسمہ ساز، شنگھائی انسٹی ٹیوٹ آف ویژول آرٹس
"سال 2023 میں اٹلی نے ژو گوانگ چی اور ماتھیو رِچی کے مجسموں کا مطالبہ کیا تھا۔ اس پر مجھے بے حد ذمہ داری محسوس ہوئی اور تخلیقی کام تقریباً ایک سال میں مکمل ہو گیا۔ میں نے اسے ایک مراقبہ نما نقطۂ نظر سے تخلیق کیا۔ایسی منظرکشی کی جیسے یہ دونوں دانشور شہر کے وسط میں موجود ہیں۔ دونوں ایک ہی وقت میں ایک دوسرے کے استاد بھی ہیں اور دوست بھی۔”
رِچی اور ژو کی پہلی ملاقات 1600 کی دہائی کے آغاز میں چین میں ہوئی۔ ان کی شراکت ذاتی دوستی اور علمی تعاون کا منفرد امتزاج تھی جس میں ایلیمنٹس کا چینی زبان میں ترجمہ اور کنفیوشس کے متن کا یورپ سے تعارف شامل تھا۔
میسراتا میں مجسمے کی نقاب کشائی سے اُن یادگاروں کے سلسلے میں ایک اور اضافہ ہوا جو رِچی کے ثقافتی تبادلے میں کردار کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
ساؤنڈ بائٹ 2 (اطالوی): کیتیوشیا کیسیٹا، کلچرل کونسلر، میسراتا میونسپلٹی
"گزشتہ جون میں میرا پہلا سفر چین کے دارالحکومت بیجنگ کا تھا۔ وہاں جا کر میں اس بات سے بے حد متاثر ہوئی کہ چین کے عوام کس قدر گہرائی سے فادر ماتھیو رِچی کو جانتے ہیں۔ وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ انہوں نے مطالعے اور علمی گہرائی کے ذریعے چینی ثقافت کو کیا شاندار خدمات دیں اور ساتھ ہی مغربی تہذیب کے فہم میں بھی کس قدر کردار ادا کیا۔ ہمیں اپنے شہر میں ایسے مزید مقامات اور راستوں کی ضرورت ہے جو اس تاریخی شخصیت کے بارے میں ہمیں زیادہ سے زیادہ آگاہی دیں۔”
ساؤنڈ بائٹ 3 (اطالوی): داریو گرانڈونی، صدر، فادر ماتھیو رچی انٹرنیشنل فاؤنڈیشن
"درحقیقت کنفیوشس کی کلاسیکی تحریروں کے اُن کے ترجمے نے یورپ کو یہ سمجھنے کا موقع دیا کہ چین ایک نہایت ترقی یافتہ تہذیب ہے۔ اس لئے یہ مجسمے کسی تاریخی واقعے کی علامت ہوں گے۔ اور اس موقع پر یہ بھی بتایا جائے گا کہ یہ اٹلی اور چین کے درمیان دوستی کی تقریب ہے۔”
شنگھائی میں ایک متعلقہ مجسمہ ژو کے آبائی شہر گوانگ چی پارک میں نصب ہے۔ سال 2014 سے اٹلی کے شہر میسراتا اور شنگھائی کے ژو ہوئی ضلع کے درمیان رِچی اور ژو کے مجسموں کا تبادلہ ہو رہا ہے جو باہمی ثقافتی تبادلے کی علامت کو باضابطہ بناتا ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 4 (چینی): سونگ ہاؤجیے،ماہر، چینی واطالوی ثقافتی تبادلہ
"سال 1600 میں جب ژو گوانگ چی کو معلوم ہوا کہ ماتھیو رِچی نانجنگ میں ہیں تو وہ راتوں رات اُن سے ملاقات کے لئے اُن کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔ سال 1606 میں انہوں نے رِچی کے ساتھ مل کر اقلیدس کی کتاب ایلیمنٹس کا ترجمہ شروع کیا۔ ژو گوانگ چی کو یقین تھا کہ یہ کام اُن کے ملک اور معاشرے کے لئے نہایت فائدہ مند ثابت ہوگا۔ اگرچہ ژو غیر ملکی زبانوں سے ناواقف تھے اور رِچی کو چینی زبان آتی تھی لیکن ترجمے میں استعمال ہونے والی تمام اصطلاحات طے کرنے کی ذمہ داری ژو گوانگ چی ہی نے نبھائی۔”
میسراتا، اٹلی/ شنگھائی، چین سے شِنہوا نیوز ایجنسی کے نمائندوں کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link