ارمچی: چین کے شمال مغربی چین سنکیانگ ویغور خود مختار خطے سوباش گاؤں کے رہائشی 23 سالہ تاشبے گانی بیک گزشتہ برس 7 ہزار 546 میٹر بلند مزتاغ عطا چوٹی سر کرنے میں کامیابی کو فخریہ انداز سے یاد کرتے ہیں جسے "بابائے برفانی کوہسار” بھی کہا جاتا ہے۔
مزتاغ عطا اپنی نسبتاََ نرم ڈھلوانوں اور کوہ پیمائی میں درپیش کم دشواریوں کے سبب دنیا بھر کے کوہ پیماؤں میں ایک مقبول مقام کا درجہ رکھتا ہے۔ کچھ شوقین اسے اسکی کوہ پیمائی کا ریزوٹ بھی سمجھتے ہیں۔
تاشبے اپنے خاندان کے ساتھ پہاڑ کے دامن میں رہائش پذیر ہے جیسے جیسے کوہ پیمائی کو چین میں مقبولیت حاصل ہوئی انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت اپنی توجہ برف سے ڈھکی اونچی چوٹیوں کی سمت مبذول کرلی ۔ زیادہ بلندی پر رہنے کے سبب مقامی چرواہے غیرمعمولی جسمانی صحت اور قوت برداشت رکھتے ہیں۔
تاشبے اور کئی نوجوان ساتھیوں نے گزشتہ موسم گرما کے دوران کوہ پیمائی ٹیموں کے ساتھ کام شروع کیا اور انہیں کیمپ لگانے، چڑھائی چڑھنے، سامان کا انتظام اور نقل و حمل کی فراہمی میں سہولت فراہم کی۔
ہر کوہ پیما کو مزتاغ عطا سر کرنے میں ان کا تعاون درکار ہوتا ہے یہ کام بہت مشکل ہے جس میں اونچے پہاڑی راستوں پر 30 کلو گرام وزنی سامان لے جانے کے ساتھ ساتھ بلندی کے سخت ماحول سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔
تاشبے کا کہنا تھا کہ سطح مرتفع پر رہنے کے باوجود انہوں نے کبھی اتنا بھاری بوجھ نہیں اٹھایا اور نہ اتنی بلندی پر چڑھا۔ تاہم انہیں اس کام میں لطف آتا ہے خاص کر چوٹی تک پہنچنے پر کامیابی کا احساس ہوتا ہے۔ اس نے مجھے مشکلات کا سامنا کرنے کا گر سکھایا ہے۔
کوہ پیمائی موسم ان نوجوان چرواہوں کے لئے سال کا سب سے زیادہ کمائی کرنے والا عرصہ بن چکا ہے۔ جس سے ان کی زندگیاں تبدیل ہوگئی ہیں۔
سوباش گاؤں کے فرسٹ سیکریٹری ین ہانگ نے بتایا کہ گزشتہ 2 برس کے دوران مزتاغ عطا پر کوہ پیمائی میں اضافے سے مقامی اقتصادی ترقی کو فروغ ملا اس وقت تقریباََ 60 دیہاتی کوہ پیمائی سے وابستہ ملازمتیں کررہے ہیں۔
1 ارب 10 کروڑ یوآن (تقریباً 15 کروڑ 13 لاکھ امریکی ڈالر) کی لاگت سے کوہ پیمائی قصبے کی تعمیر سے دیہاتیوں کو روزگار کے مزید مواقع ملیں گے۔
تاشبے نے گزشتہ سیزن میں 20 ہزار یوآن سے زائد کمائے تھے، جس سے انہیں گزشتہ اکتوبر اپنی دوست سےشادی کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں لگتا تھا کہ یہاں صرف پہاڑ ہی ہیں اور انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کوہ پیمائی ان کی آمدن کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
ملک بھرکے لوگ بھی پہاڑوں سے اپنی مشترکہ محبت کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں۔ تاشبے نے بتایا کہ کم بلندی والے علاقوں کے بہت سے کوہ پیما یہاں آکر زیادہ بلندی کے امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور وہ صرف اپنے خیموں میں آرام کرنا پسند کرتے ہیں۔ ایسے میں وہ ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کرکے راحت محسوس کرتے ہیں۔
اپنی ساکھ کی بدولت انہوں نے ہرجگہ سے کئی نئے دوست بنائے ہیں ۔ اپنے فارغ وقت میں نوجوان داستانوں کا اشتراک کرنے اور ایک دوسرے کی ثقافتوں و رسم و رواج سے متعلق جاننے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ جہاں ان کے دوست ان کی جسمانی صحت سے حیران ہوتے ہیں تو وہیں تاشبے بڑے شہروں میں زندگی کی داستانیں سن کر محظوظ ہوتے ہیں۔
تاشبے نے کہا کہ گزشتہ برس چھونگ چھنگ کے ایک دوست نے انہیں شہر کے پہاڑیوں سے متعلق آگاہ کیا تھا انہوں نے مجھے آنے کی دعوت دی۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جو میں نے اس سے قبل نہیں دیکھا اورمیں اپنی بیوی کو کسی وقت وہاں لے جانا چاہتا ہوں۔.”
اپنے وطن کے حیرت انگیز مناظر اور کئی سیاحوں کے لئے اس کی کشش پرفخرکرتا تاشبے کوہ پیمائی میں مستقبل تلاش کے لئے پرعزم ہے۔ بہت سے نوجوانوں کی طرح وہ اکثر ٹک ٹاک کے چینی ورژن ڈوین پر ویڈیوز دیکھتے ہیں۔
ان کا زیادہ تر مواد کوہ پیمائی پر مشتمل ہوتا ہے ۔ برف سے ڈھکی چوٹیوں کے ساتھ ان کی کشش بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ کوہ پیمائی کی مہارت اور علم سیکھنے کے ہر تربیتی موقع سے استفادہ کرتے ہیں جبکہ وہ پہلے ہی بنیادی کوہ پیمائی گائیڈ سرٹیفکیٹ حاصل کرچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوہ پیمائی سیزن ختم ہوتے ہی پہاڑوں پرخاموشی چھاجاتی ہے۔ وہ ہمیشہ امید کرتے ہیں کہ کوہ پیمائی کا اگلا سیزن جلد ہی اسے دوبارہ زندگی بخشے گا۔
