تنزانیہ کے علاقے زنجبار میں ٹی بی کے مریض سیف حسن مبارک کا کہنا ہے کہ میں آج دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ مل کر ٹی بی کا عالمی دن منانے کے قابل ہوا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ زنجبار میں چین کی میڈیکل ٹیم کے 34ویں بیچ کی زندگی بچانے کی کوششوں کی بدولت ہی ایسا ممکن ہوا ہے۔
سال 1993 سے تپ دق (ٹی بی) کا عالمی دن ہر سال 24 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ دنیا کی اس سب سے مہلک متعدی بیماری ٹی بی کو ختم کرنے کے لئے آگاہی اور تیزتر اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کیا جائے گا۔
25 سالہ مبارک، 5 ماہ قبل ادویات سے مدافعت کرنے والی ٹی بی کا شکار ہوئے تھے۔ اس وقت ان کی حالت بہت نازک تھی۔ تب سے ان کے جسم میں اس بیماری کی علامات میں نمایاں کمی آئی ہے اور یہ چین کے ڈاکٹروں کی بروقت کوششوں کی بدولت ممکن ہوا۔
ساؤنڈ بائٹ 1 (سواحلی): سیف حسن مبارک، زنجبار کا رہائشی
’’ وہ اپنے کام میں بہت پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ انہوں نے بیماری کی وہ تشخیص کی جو دوسرے صحت کے مراکز نہیں کر پائے تھے۔ اس طرح چین کے ڈاکٹروں نے میری صحت بحال کر دی۔‘‘
مبارک کو اس علاقے کے سب سے بڑے عوامی صحت کے ادارے منازی مموجہ ہسپتال میں معیاری علاج فراہم کیا گیا۔ یہاں چین کی میڈیکل ٹیم کے 34ویں بیچ کے ارکان کام کر رہے ہیں۔ سواحلی زبان میں ’’منازی مموجہ‘‘ کا مطلب ہے ’’ناریل کا ایک درخت‘‘۔
مبارک کا کہنا ہے کہ انہوں نے مجھے ادویات سے مدافعت کرنے والی ٹی بی کے مرض کی تشخیص کی۔ 5 ماہ کے علاج کے بعد میں بہت بہتر محسوس کر رہا ہوں۔
اس کے علاج میں پیشرفت نے دوسرے مریضوں اور شعبہ صحت کے مقامی کارکنوں میں بھی ٹی بی اور خاص طور پر ادویات سے مدافعت کرنے والی ٹی بی کی اقسام کے خلاف جنگ میں امید بحال کی ہے۔
راشد حسن علی، منازی مموجہ ہسپتال میں کارڈیو تھوراسک سرجن ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ زنجبار میں ٹی بی کا مرض بہت عام ہے۔ بچوں سے لے کر بوڑھوں تک ہر عمر کے لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا چیلنج بیماری کی تاخیرسے تشخیص ہے۔
علی نے چین کے شمال مشرقی صوبہ حئی لونگ جیانگ کی جیاموسی یونیورسٹی سے کارڈیو تھوراسک سرجری کی تربیت حاصل کی ہے۔ علی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ٹی بی کے مریض پہلے دور دراز کے ان صحت مراکز میں علاج کے لئے جاتے ہیں جہاں ماہرین اور تشخیصی آلات دستیاب نہیں ہوتے۔ پھرجب وہ یہاں پہنچتے ہیں تو ان کی حالت اکثر نازک ہو چکی ہوتی ہے۔
زنجبار میں چین کی میڈیکل ٹیم کے ارکان نے ان کی مدد کے لئے قدم اٹھایا ہے۔ وہ نا صرف خود مریضوں کا علاج کرتے ہیں بلکہ مقامی طبی عملے کو ٹی بی سمیت مختلف بیماریوں کی تشخیص بہتر بنانے کی تربیت بھی دیتے ہیں۔
ساؤنڈ بائٹ 2 (انگریزی): راشدحسن علی، کارڈیو تھوراسک سرجن، منازی مموجہ ہسپتال
’’چین کے ڈاکٹروں کی موجودگی کے باعث ہم اپنی ہسپتال میں مریضوں کی تشخیص کے عمل میں آسانی کے ساتھ بہتری لا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم پیچیدگیوں سے نمٹنے میں بھی بہتری لا رہے ہیں کیونکہ زیادہ تر مریض ٹی بی کے مرض کی پیچیدگیوں کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اب ہم علاج میں بہتری لا رہے ہیں جس کے نتیجے میں اموات کی شرح بھی کم ہو رہی ہے۔‘‘
زنجبار میں چین کی میڈیکل ٹیم کے 34ویں بیچ کے سربراہ چھن وی نے کہا کہ تنزانیہ ٹی بی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے تاہم حالیہ برسوں میں اس نے بہتری کی طرف پیشرفت کی ہے۔ اس کا سہرا ٹی بی کی روک تھام کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ عالمی سرمایہ کاری کو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود چیلنجز اب بھی موجود ہیں۔
ساؤنڈ بائٹ 3 (چینی): چھن وی، سربراہ، 34واں بیچ ، چائنیز میڈیکل ٹیم، زنجبار
’’ تنزانیہ دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ٹی بی کی بیماری زیادہ ہے۔ اگرچہ حکومت اور عالمی تنظیموں کی کوششوں سے ٹی بی کے مرض کے واقعات کی شرح میں کمی آئی ہے تاہم یہ ملک میں عوامی صحت کے حوالے سے اب بھی ایک سنجیدہ چیلنج ہے۔ ‘‘
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی سال کی 2024 کی عالمی ٹی بی رپورٹ کے مطابق تنزانیہ میں ٹی بی کی شرح میں 40 فیصد کمی آئی ہے۔ سال 2015 میں ایک لاکھ افراد میں سے 306 افراد ٹی بی کے مرض میں مبتلا تھے جبکہ سال 2023 میں میں مریضوں کی تعداد کم ہو کر 183 رہ گئی ہے۔ ایچ ٹی وی پازیٹو اور ایچ ٹی وی نیگیٹو سمیت ٹی بی کے مریضوں کی اموات کو دیکھا جائے تو یہ تعداد سال 2015 میں 58 ہزار تھی جو کم ہو کر سال 2023 میں 18400 رہ گئی۔ اسے اموات میں 68 فیصد کمی کہا جا سکتاہے۔
دارالسلام، تنزانیہ سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link