آکرہ: 13 مئی2024 گھانا کے دارالحکومت آکرہ میں مشہورامریکی موسیقار اسٹیوی ونڈر نے صدر نانا ادو ڈنکوا اکوفو ایڈو سے گھانا کی شہریت کی سند وصول کی جو ان کی 74 ویں سالگرہ کے موقع پران کے لئے ایک تاریخی لمحہ تھا، اس موقع پر وطن واپسی کا ایک جذباتی منظر دیکھنے کو ملا۔
ونڈر نے بتایا کہ گھانا میں ان کے اباؤ اجداد کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ جب وہ پہلی بار یہاں آئے تھے تو انہوں نے اس کا احساس کیا کہ جیسے وہ اس قبل بھی یہاں آچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں جانتا تھا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں میری موجودگی ضروری ہے۔
سال 1619 میں پہلےبار باضابطہ طور پر افریقی غلاموں کو برطانوی کالونی ورجینیا لایا گیا تھا، جس سے بحراوقیاس پار غلاموں کی شرمناک تجارت کا آغاز ہوا۔ اس عمل نے لاکھوں افراد کو ان کے آبائی علاقوں سےاجاڑ کر کہیں اور پھینک دیا گیا۔ 4 صدی بعد گھانا کی حکومت نے 2019 میں واپسی کے سال کا آغاز اعلان کیا جس میں ان غلام افریقیوں کی اولادوں کو ان کے آبائی وطن لوٹنے کی دعوت دی گئی۔
گھانا جو کبھی غلامی پر مجبور کئے گئے بے شمار افریقیوں کا آخری پڑاؤ ہوتا تھا وہ 20 ویں صدی میں افریقی آزادی کی تحریک اور پین افریقی ازم کے آغاز کا مرکز بنا۔
کیپ کوسٹ قلعہ میں 18 برس تک گائیڈ کے طور پر خدمات انجام دینے والے رابرٹ مورگن مینسا نے بتایا کہ ہم نےیہاں بہت خوبصورت فن تعمیر دیکھا تاہم اس کے پیچھے کی افسوسناک تاریخ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ بحراوقیانوس پار غلاموں کی تجارت کے دوران کیا ہوا تھا۔
مینسا کے مطابق ، گھانا کے وسطی صوبے کے ساحل پر واقع کیپ کوسٹ قلعہ بحر اوقیانوس کے سامنے دیواروں پر توپیں ںصب تھیں، یورپی اقوام نے مغربی افریقی ساحل کے ساتھ 60 سے زیادہ قلعے تعمیر کئے جن میں سے 40 سے زیادہ صرف گھانا میں تھے تاکہ بحراوقیانوس پار غلاموں کی تجارت آسان بنائی جاسکے۔
یورپی 15 ویں صدی کے وسط میں خلیج گنی پہنچے تھے انہوں نے اپنے تلاش کردہ علاقوں کو اجناس کے نام دیئے ۔ گھانا "گولڈ کوسٹ” تھا۔ آئیوری کوسٹ "آئیوری کوسٹ” بن گیا اور جدید ٹوگو، بینن اور نائجیریا کے کچھ حصوں کو "غلام ساحل” کا نام دیا گیا۔
بھاری نفع کی وجہ سے یورپی اقوام نے امریکہ اور کیریبین کو نوآبادی بنایا ، زمین اور وسائل پر قابض ہوگئے اور مقامی آبادیوں کو تہس نہس کردیا۔ ان دونوں مزدوروں کی شدید قلت تھی جس کےلئے انہوں نے افریقہ کا رخ کیا۔ اپنی حکومتوں کی شہ پر یورپی تاجروں نے بڑے پیمانے پر غلاموں کی تجارت شروع کردی جسے کارل مارکس نے "انسانی گوشت کی تجارت ” کے طور پر بیان کیا تھا۔
اس تجارت کو "سہ رخی تجارت” بھی کہا جاتا ہے جو یورپ ، افریقہ اور امریکہ کو جوڑتی تھی ۔ غلاموں کے تاجر شراب، کپڑے اور بندوقوں جیسی اشیاء کے ساتھ یورپ سے مغربی افریقہ کی سمت روانہ ہوتے اور پھرغلام افریقیوں کو بحر اوقیانوس کے پار 6 سے 10 ہفتوں کے تکلیف دہ سفر میں لے جاتے تھے جسے "درمیان پڑاؤ” کہا جاتا ۔ ایک بار امریکہ میں پودے لگانے اور کانوں کے مالکان کو غلام فروخت کئے گئے اور تاجر زرعی اور معدنی مصنوعات کی بڑی کھیپ کے ساتھ یورپ لوٹے۔
کیپ کوسٹ قلعہ ان بڑے مغربی افریقی قلعوں میں سے ایک ہے، اسے ابتدائی طور پر سویڈن نے تعمیر کیا تھا تاہم بعد میں اس پر انگریزوں نے قبضہ کرلیا۔ اندرون ملک پکڑے گئے غلام افریقیوں کو ہفتوں یا مہینوں تک ان تہہ خانوں میں جہاز کی آمد تک رکھا جاتا تھا۔
مینسا نے ان سنگین حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ پانچ تہ خانے تھے جس میں ہرایک میں 150 سے 200 زنجیروں میں جکڑے غلام تھے۔ یہاں اندھیرا ہوتا تھا اور ہوا کا گزر تک نہ تھا۔
مینسا نے بتایا کہ تہہ خانے گندگی سے بھرے ہوتے تھے اور بیماریاں تیزی سے پھیلتی تھیں ۔ یہاں جو لوگ مرجاتے ان کی لاشیں سمندر برد کردی جاتی تھیں۔
