یہ ترکیہ کے شمال مغربی صوبہ بُرسا میں واقع ریشم سازی کا ایک مرکز ہے۔ یہاں ریشم بافی کے مقامی ماہر کاریگر رمزی گلر، انتہائی توجہ سے اس عمل کو دیکھتے ہیں جب ریشم کے کیڑوں کے کوکونز کو الوداغ پہاڑ کی ڈھلوانوں سے حاصل کئےگئے تیزابیت رکھنے والے چشمے کے پانی میں احتیاط سے ابالا جاتا ہے۔
گُلر نے شِنہوا کو بتایا کہ ریشم کو محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ گھونسلے سے کیڑے کے نکلنے سے پہلے پہلے کوکون کو ابال لیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ابالنے کے عمل کا یہ مرحلہ انتہائی اہم ہوتا ہے کیونکہ حرارت اور پانی کوکون کو نرم کر دیتے ہیں جس سے اس کے اندر موجود ریشم کے ریشے ڈھیلے ہو جاتے ہیں۔ اس طرح یہ ریشے احتیاط سے کھولے جا سکتے ہیں۔
ساؤنڈ بائٹ 1 (ترکیہ): رمزی گلر، ریشم بافی کے ماہر کاریگر
’’ عمل کا آغاز کوکونز کو گرم پانی میں ڈالنے سے ہوتا ہے۔ جب وہ نرم ہو جائیں تو ہم ریشم کے باریک دھاگوں کا سرا ڈھونڈ کر اسے ایک چرخی پر لپیٹتے ہیں۔ خام ریشم جو لمبی لمبی پتلی پُلیوں کی صورت میں نکلتا ہے، بعد ازاں اسے بل دینے، رنگنے، منتقل کرنے اور تہہ لگا کر ترتیب دینے کے مراحل کے لیے بھیج دیا جاتا ہے یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں ریشم کے دھاگے کی تبدیلی کا سفر شروع ہوتا ہے۔‘‘
ایک ماہر کاریگر کے طور پر وہ ریشم کے دھاگے کے نازک سروں کو چرخی پر چڑھاتے ہیں۔ ایک کوکون سے تقریباً 1000 میٹر لمبا، مسلسل، چمکتا ہوا ریشمی دھاگا نکالا جا سکتا ہے جو مضبوط، نرم، اور انتہائی باریک ہوتا ہے۔
بُرسا میں ریشم سازی کی صنعت 14ویں صدی کے آخر میں پروان چڑھی تھی۔ 15 ویں سے 17ویں صدی تک سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں یہ اپنے عروج پر پہنچی۔ اس وقت یہاں کے پُرتعیش ریشمی کپڑوں کی یورپی اشرافیہ میں زبردست مانگ ہوا کرتی تھی۔
لیکن سال 1860 کی دہائی میں کیڑے کی ایک بیماری ’’پیبرین‘‘ پھیل گئی۔ بعد کی جنگوں کے باعث یہ صنعت زوال کا شکار ہو گئی۔
آج کا بُرسا ،جو کبھی قدیم ریشم روڈ کا ایک اہم پڑاؤ ہوا کرتا تھا اب اپنی صدیوں پرانی ریشم سازی کی روایت کو کمیونٹی کی مدد سے دوبارہ زندہ کر رہا ہے۔
ریشم کی صنعت میں مزید ماہر افراد تیار کرنے کے لئے، مقامی حکومت پورے صوبے میں فنی تربیت، خصوصی کورسز اور تعلیمی پریزنٹیشنز فراہم کر رہی ہے
ریشم کی صنعت میں مزید ماہر افراد تیار کرنے کے لئے مقامی حکومت پورے صوبے میں فنی تربیت، خصوصی کورسز اور تعلیمی پریزنٹیشنز فراہم کر رہی ہے۔
بُرسا میونسپلٹی کے شعبہ لائف لانگ لرنننگ کی سربراہ آیچا تائیر بتایا کہ ہماری کوشش ہے کہ تعلیم کے ذریعے شعور پیدا کیا جائے۔ ہم ریشم کی کہانی کو لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہم سکولوں، این جی اوز اور گروپس کو خوش آمدید کہتے ہیں تاکہ وہ ہمارے مراکز میں آئیں اور ہم سےسیکھیں۔ ہمارے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔‘‘
تائیر کے مطابق خواتین اور نوجوان نسل خاص طور پر ریشم بُننے کے ہنر کو سیکھنے کے لئے پُرعزم ہیں۔ ان میں سے متعدد نے بعد میں اپنے ذاتی کاروبار بھی قائم کر لئے۔
ساؤنڈ بائٹ 2 (ترکیہ): آیچا تائیر، شعبہ لائف لانگ لرننگ، بُرسا میونسپلٹی
’’ ہمارے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریشم سازی اور بُنائی کا فن ہر نسل تک منتقل ہو اور ابتدا ہی سے منتقل ہو، ہر اُس شخص تک جو اس میں دلچسپی یا تجسس رکھتا ہو۔ یہی ہمارا مقصد ہے۔‘‘
پہاڑی دیہات میں بھی کوکونز کی پیداوار کو فروغ دینے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ مراعات اور ماہرین کی رہنمائی سے دیہاتیوں میں یہ روایتی فن دوبارہ پنپنے لگا ہے۔ مخصوص مراعات اور ماہرین کی رہنمائی دیہات میں اس روایتی ہنر کو اس کی اصل بنیاد سے دوبارہ زندہ کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کاوشیں نہ صرف ثقافتی ورثے کو محفوظ کر رہی ہیں بلکہ مقامی سیاحت اور کاریگروں کے لئے مستحکم آمدنی کا ذریعہ بھی ہیں۔
اسی دوران بُرسا کے تاریخی ریشم بازار ’’کوزہان‘‘ میں، مقامی دکاندار نہاری ناملوجو نے بتایا کہ صنعتی ترقی کے باعث ریشم کی مقبولیت بہت زیادہ کم ہو گئی ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 3 (ترکیہ): نہاری ناملوجو، مقامی دکاندار
’’ ہمارے کئی گاہک ریشم کے مقابلے میں مصنوعی کپڑوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سہولت ہے۔ مصنوعی کپڑے دھونا اور سنبھالنا آسان ہوتا ہے۔ اس لئے لوگ انہیں روزمرہ کے استعمال کے لئے زیادہ عملی سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف، ریشم ایک نازک کپڑا ہے، جسے خاص خیال کے ساتھ اورعموماً ہاتھ سے دھونا پڑتا ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 4 (ترکیہ): نہاری ناملوجو، مقامی دکاندار
’’ لیکن مجھے یقین ہے کہ ریشم کی پیداوار ایک بار پھر عروج پر آئے گی، اور ایسا ہونا بھی چاہئے۔ جب تک ہم اس کی پیداوار جاری رکھیں گے، اس کی مانگ ہمیشہ موجود رہے گی، بالکل سونے کی طرح۔‘‘
استنبول، ترکیہ سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link