عالمی برادری جس وقت جنگلات کا عالمی دن منانے کی تیاری کر رہی ہے، افغانستان کے عوام اپنے جنگ زدہ ملک میں جنگلات کی بحالی اور پھیلاؤ کے لیے عملی اقدامات کر رہے ہیں۔
انہی ہزاروں افراد میں شامل حاجی معصوم جان جنگلات کے تحفظ اور فروغ کے مشن کے ایک سرگرم حامی ہیں۔
ساؤنڈ بائٹ 1 (پشتو): حاجی معصوم جان، مقامی رہائشی
’’یہ جنگل انتہائی اہم ہے۔ یہ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش ہے۔ یہ جنگل مقامی آبادی کو فائدہ پہنچاتا ہے اور ماحول کو زیادہ خوشگوار بناتا ہے۔‘‘
چلغوزے بیچ کر آمدنی پر انحصار کرنے والے معصوم جان جنگلات کو اور خاص طور پر چلغوزے کے درختوں کو مقامی رہائشیوں کے لئے ایک اہم معاشی وسیلہ سمجھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جنگلات میں اضافے سے نا صرف افغان خاندانوں کی سالانہ آمدنی بڑھتی ہے بلکہ یہ عمل ایک ایسے ملک میں جو قدرتی آفات کا شکار رہا، ماحول کے تحفظ میں بھی مدد دیتا ہے۔
صوبہ خوست کے مشرقی حصے میں واقع ضلع شاواک قدرتی طور پر چلغوزوں کے جنگلات سے مالا مال ہے۔
صوبہ پکتیا کے مقامی رہائشی معصوم جان 11 افراد پر مشتمل اپنے خاندان کے واحد کفیل ہیں۔ وہ بہتر روزگار کے لئے ضلع شاواک آ گئے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ہر خاندان چلغوزوں کی فروخت سے سالانہ ڈیڑھ لاکھ سے 3 لاکھ افغانی تک کماتا ہے جبکہ ایک امریکی ڈالر کی قیمت 71 افغانی کے برابر ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 2 (پشتو): حاجی معصوم جان، مقامی رہائشی
’’ جنگل لوگوں کی زندگی کے معیار پر 100 فیصد مثبت اثر ات مرتب کر رہاہے۔ اس سے ماحول بھی صاف رہتاہے۔
میں اپنے بھائیوں اور ہم وطنوں پر زور دوں گا کہ وہ درختوں کو نہ کاٹیں۔ جنگلات ماحول کو صاف رکھتے ہیں اور قومی ترقی میں ان کا ایک کردار ہے۔‘‘
ایک اور مقامی رہائشی سیداللہ نے بھی جنگلات کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 3 (پشتو): سیداللہ، مقامی رہائشی
’’ جنگلات ہماری زندگیوں میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم سردیوں میں اپنے گھروں کو گرم رکھنے کے لیے لکڑی استعمال کرتے ہیں اور چلغوزے فروخت کر اپنی روزی کماتے ہیں۔یہ بہت زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔‘‘
سیداللہ کے پاس ڈیڑھ ہزار ایکڑ رقبے پر مشتمل جنگل ہے۔ ضلع شاواک کے دوسرے رہائشیوں کی طرح وہ بھی جنگلات کے تحفظ کا پختہ عزم رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ درختوں کو غیر قانونی طور پر نہ کاٹا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ذریعہ معاش کے حوالے سے ضلع شاواک میں ہر شخس جنگلات پر انحصار کرتا ہے۔ چلغوزوں کی فروخت ہماری آمدنی کا اہم ذریعہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ خود سالانہ اڑھائی لاکھ سے 3 لاکھ افغانی تک کما لیتے ہیں۔
افغانستان کے جنگلات 40 سال سے زائد عرصے کی جنگ اور بدامنی کے دوران بڑے پیمانے پر نقصان سے دوچار ہوئے ہیں۔
تاہم اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت جنگلات کو بحال کرنے اور اور ان کا رقبہ بڑھانے کی کوششیں کر رہی ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 4 (دری): مولوی عبدالاحد خلیل، جنرل ڈائریکٹر برائے قدرتی وسائل، وزارت زراعت، آبپاشی اور لائیوسٹاک
’’ گزشتہ دو برسوں کے دوران ہم نے جنگلات کی ترقی کے لئے ملکی آمدنی سے 10 کروڑ افغانی مختص کئے تھے۔ ہم نے ایک لاکھ ہیکٹر اراضی پر جنگلات اور چراگاہیں بحال کر دی ہیں۔ چلغوزے، پستہ اور اخروٹ کے درختوں پر بھی خاص توجہ دی جا رہی ہے۔‘‘
اس وقت افغانستان کی اراضی کا تقریباً 2.8 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ عبوری حکومت سر سبز و شاداب اراضی کا دائرہ مزید بڑھانے اور چراگاہوں کی بحالی کے لئے بدستور پُرعزم ہے۔
خلیل نے بتایا کہ اس سال ہم مختلف تنظیموں کے تعاون سے ایک کروڑ 60 لاکھ پودے لگانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ایرانی سال 1404 یعنی 21 مارچ 2025 ہماری اس طویل مدتی حکمت عملی کا نقطہ آغاز ہے۔ اس کا مقصد آئندہ 10 برسوں میں ایک کروڑ 60 لاکھ پودے لگانا ہے۔ یہ پودے ملک بھر میں 2 لاکھ ہیکٹر اراضی پر لگائے جائیں گے۔”
شاواک، افغانستان سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link