اتوار, جولائی 27, 2025
تازہ ترینایوارڈ یافتہ امریکی فوٹوگرافروں نے چینی کہانیوں میں روح پھونک دی

ایوارڈ یافتہ امریکی فوٹوگرافروں نے چینی کہانیوں میں روح پھونک دی

کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی، لانگ بیچ  کے لیکچر ہال میں جاری شاندار تصویری نمائش نے حاضرین کو بحر الکاہل کے اُس پار چین کی گلیوں، بازاروں اور ثقافت کا عکس پیش کیا ہے۔

یہ نمائش چین کے جنوبی صوبے گوانگ ڈونگ کی روزمرہ زندگی، مصروف بازاروں، یاؤنسلی گروہ کے پُرسکون دیہات اور روایتی ینگے لوک رقص کی عکاسی کرتی ہے، جس نے ناظرین کو ایک منفرد تجربے سے روشناس کرایا ہے۔

نمائش میں شامل تصاویر چار ایوارڈ یافتہ امریکی فوٹوگرافروں کی تخلیقی نگاہ کا نتیجہ تھیں، جنہوں نے چین کی حقیقت کو ایک نئی بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان فوٹوگرافروں نے گزشتہ سال نومبر میں گوانگ ڈونگ کا 11 روزہ دورہ کیا، جہاں انہوں نے صوبے کی بھرپور تاریخ، متنوع برادریوں اور جدید شناخت کے ارتقاء کو قریب سے دیکھا ہے۔

انہوں نے روزمرہ زندگی سے لے کر روایتی تقریبات تک، گوانگ ڈونگ کی متحرک ثقافت اور تیز رفتار ترقی کو تصویروں میں قید کیا۔ جمعرات کو لیکچر ہال  میں منعقدہ ایک خصوصی سیشن میں ان فوٹوگرافروں نے اپنے تجربات براہ راست طلبہ، اساتذہ اور دانشوروں کے ساتھ شیئر کیے ہیں۔

امریکی نیشنل پریس فوٹوگرافرز ایسوسی ایشن کے “بیسٹ آف فوٹو جرنلزم” ایوارڈ یافتہ مائیکل نیلسن نے چین میں گزارے گئے اپنے یادگار لمحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا۔

ساؤنڈ بائٹ1(انگریزی): مائیکل نیلسن، امریکی نیشنل پریس فوٹوگرافرز ایسوسی ایشن کے بیسٹ آف فوٹو جرنلزم ایوارڈ یافتہ

“مجھے  سب سے زیادہ متاثر کرنے والی چیز گوانگ ژو اور سیچھوان جیسے بڑے شہروں کے مرکزی حصوں کا  پُرسکون ماحول تھا، جہاں دو کروڑ سے زائد افراد رہتے ہیں۔ ان شہروں میں آلودگی کےوہ اثرات نہیں جو عام طور پر بڑے شہروں میں دکھائی دیتے ہیں۔ اور یہ ایک صحت مند ماحول کی علامت ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کا میں نے پہلے ذکر نہیں کیا تھا، لیکن میرے دونوں دوروں میں یہ خاص طور پر مجھے بہت متاثر کر گئی۔‘‘

نیلسن نے مزید کہا کہ وہ چین کی تکنیکی ترقی، کھلے پن اور ماحولیاتی پائیداری کے عزم سے بھی بے حد متاثر ہوئے ہیں۔

ساؤنڈ بائٹ2(انگریزی): مائیکل نیلسن، امریکی نیشنل پریس فوٹوگرافرز ایسوسی ایشن کے بیسٹ آف فوٹو جرنلزم ایوارڈ یافتہ

“میرے ساتھیوں میں سے ایک نے علی پے اور دیگر ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام کے بارے میں بتایا ہے۔ وہاں چھوٹے کھوکھوں پر ٹافیاں اور دیگر اشیاء فروخت کی جاتی ہیں، اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس علاقے میں ادائیگیاں صرف علی پے کے ذریعے کی جاتی ہیں، جو نہ صرف آسان بلکہ ایک محفوظ ترین طریقہ بھی ہے۔‘‘

لاس اینجلس، یوایس سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!