چین کے مشرقی صوبے انہوئی کے ہیفے میں ساتویں ورلڈ وائس ایکسپو میں ایک انسان نما روبوٹ ایک مہمان کے ساتھ سیلفی بنا رہا ہے۔(شِنہوا)
ڈیووس، سوئٹزرلینڈ (شِنہوا)صنعتی مبصرین نے کہا ہے کہ چین کی مصنوعی ذہانت(اے آئی) کی صنعت اور خاص طور پر لارج لینگوئج ماڈل ٹیکنالوجی میں حالیہ تیز رفتار ترقی نے امریکہ کی دباؤ کی پالیسی کو نمایاں طور پر ناکام بنا دیا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم(ڈبلیو ای ایف) 2025 کے سالانہ اجلاس کے افتتاحی دن چینی اے آئی اسٹارٹ اپ ڈیپ سیک نے اپنے جدید ترین اوپن سورس ماڈل، ڈیپ سیک۔آر1 کو جاری کیا۔اس نے ایک اہم تکنیکی پیشرفت حاصل کی ہے جس نے خا لصتاً سیکھنے کے طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے اے آئی کو بےساختہ استدلال کی صلاحیتوں کے ساتھ ابھرنے کی اجازت دی ہے۔
ڈیپ سیک کے مطابق ریاضی، کوڈنگ اور قدرتی زبان کے استدلال جیسے کاموں میں اس ماڈل کی کارکردگی اوپن اے آئی جیسے بڑے ناموں کے سرکردہ ماڈلز کے برابر ہے۔
سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ڈبلیو ای ایف کے سالانہ اجلاس کے متعلقہ مباحثوں میں چین کی اے آئی ٹیکنالوجی ایک گرما گرم موضوع بن چکی ہے۔
میسا چوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے معروف اے آئی ماہر میکس ٹیگ مارک نے شِنہوا کو بتایا کہ چین نے گزشتہ سال کے دوران اے آئی میں نمایاں پیشرفت کی ہے۔
ٹیگ مارک نے کہا کہ چین ایک سال قبل کٹنگ۔ایج لارج لینگوئج ماڈلز میں تھوڑا پیچھے رہ گیا تھا لیکن اب اس نے اس شعبے میں اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔
