چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے وفاقی حکومت سے سیلاب متاثرین کی مدد بارے پالیسیوں پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ معلوم نہیں سیلاب متاثرین کی مدد کو انا کا مسئلہ کیوں بنالیا گیا، وفاقی حکومت کو عالمی مدد مانگنی چاہئے تھی، بلوچستان کا مسئلہ فوجی نہیں سیاسی طریقے سے حل کرنا ہوگا، گندم درآمد سے بہتر ہے کسانوں کو سپورٹ دے کر ایکسپورٹ کریں، زرعی ایمرجنسی کے تحت آئی ایم ایف سے گندم خریداری پر بات کی جائے، ایف بی آر ناکامی کی سزا صوبوں کو نہیں دی جاسکتی، پنجاب کے وزراء کی سندھ پر تنقید ذاتی خیالات، پارٹی پالیسی نہیں۔
وزیراعلی ہائوس کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ملک میں زرعی و موسمیاتی ایمرجنسی کے نفاذ اور متاثر علاقوں میں کسانوں کے بجلی بل معاف کرنے پر وفاقی حکومت اور وزیراعظم کے شکر گزار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ نے بینظیر ہاری کارڈ کے ذریعے چھوٹے کاشت کاروں کی مدد کا فیصلہ کیا ہے، کسانوں کی ڈی اے پی اور یوریا کی خریداری میں مدد کریں گے، امید ہے جلد یہ سلسلہ شروع ہو جائے گا، گندم کے کاشت کاروں کی مدد کریں گے تاکہ گندم درآمد کرنی نہ پڑے۔
انہوں نے کہا کہ گندم امپورٹ کرنے پر پاکستان کا پیسہ باہر جاتا ہے، اس سے بہتر ہے کہ وہ پیسہ اپنے کسانوں پر خرچ کریں اور امپورٹ کے بجائے گندم ایکسپورٹ کریں، وفاقی حکومت اگر ہمیں سپورٹ کرے تو مدد میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت زرعی ایمرجنسی کے تحت گندم خریداری اور امدادی قیمت نہ دینے کے معاملے پر آئی ایم ایف سے بات کرے جبکہ ٹیکس کی مد میں بھی کسانوں کو ریلیف دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب خصوصا جنوبی پنجاب میںسیلاب سے نقصان بہت زیادہ ہے، پنجاب حکومت کی تعریف کرتا ہوں کہ انہوں نے کسانوں کے نقصانات پورے کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن سیلاب کے دوران کسانوں کی مدد بہت ضروری ہے، آگے آپ کیا کریں گے وہ ٹھیک ہے لیکن آج آپ کیا کر رہے ہیں سوال یہ ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کسانوں کی مدد کریں، وفاقی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ پنجاب، گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا میں کسانوں کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ریلیف دے، آج اگر یہ نہیں کیا جا رہا تو میرا سوال ہے کہ جنوبی پنجاب کے عوام کا قصور کیا ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سب سے زیادہ بینیفشری پنجاب سے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ معلوم نہیں متاثرین کی مدد کو انا کا مسئلہ کیوں بنالیا گیا، وفاق کو اپنی پالیسی پر نظرثانی اور سیلاب متاثرین کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے مدد فراہم کرنی چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ سیلاب کے بعد وفاق کو عالمی مدد مانگنی چاہئے تھی، اگر آج آپ 100روپے خرچ کررہے ہیں تو آپ کے پاس 200 روپے خرچ کرنے کیلئے ہوتے، آپ عالمی دنیا اور اداروں سے بات کریں اور سیلاب کی وجہ سے آئی ایم ایف شرائط پر نظرثانی کریں جس طرح وفاق نے ہر بار کسی بھی آفت میں عالمی دنیا کی طرف رجوع کیا ہے ویسے اس بار بھی ہونا چاہئے تھا۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاک سعودی دفاعی معاہدہ اچھا ہے، ہر جگہ سے اس کی تعریف ہو رہی ہے، حنا ربانی گھر کی سربراہی میں فارن کمیٹی نے ایک اجلاس شیڈول کیا ہے، ان کیمرہ بریفنگ کی بھی بات ہو رہی ہے، ہم اپنی پارلیمانی ذمہ داری پوری کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کے موضوع پر جس طرح اس مرتبہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بات ہوئی، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینی عوام کی جدوجہد رنگ لا رہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ اسرائیلی حملوں کے اثرات پاک سعودی معاہدوں کی صورت میں نظر آ رہے ہیں، امید ہے عرب اور اسرائیل کے حامی ممالک بھی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں گے۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ کراچی کے مسائل بہت زیادہ ہیں، بار بار سڑکیں بنانے کا الزام جو لگایا جاتا ہے اس کی بہت وجوہات ہیں، ہم سڑکیں بناتے ہیں اور کوئی ادارہ آکر اپنی لائن بچھانے کے لیے اسے کھود دیتا ہے، لیاری میں ہماری نئی سڑکوں کو گیس لائن ڈالنے کیلئے نقصان پہنچایا گیا، وزیراعلی سے درخواست کروں گا کہ اس کے بارے میں کوئی پالیسی بنائیں۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے کئی اقدامات جاری ہیں، پانی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے حب کینال سمیت کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں، پہلی ترجیح پانی ہے، اس کے بعد سڑکیں اور دوسرے کام، پبلک پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر کام کرنے کا حامی ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول نے کہا کہ وفاقی حکومت اگر ایم کیو ایم کے حلقوں کے لیے فنڈز دے رہی ہے تو وہ بھی یہیں خرچ ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت میں وفاق سے سپورٹ ملی اور وعدے پورے کئے گئے ہیں، وزیراعظم اور اسحاق ڈار کا سپورٹ کیلئے شکر گزار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے پی ایس ڈی پی میں مشکلات کے باوجود وزیراعلی نے اچھا کام کیا ہے، وفاقی حکومت نے پی ایس ڈی پی میں بھی اچھا حصہ ڈالا ہے، اس کے حجم پر بات ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں تاریخی تنازعات اور شکایات اپنی جگہ ہیں، دہشتگردی خواہ بلوچستان میں ہو یا کہیں بھی ہو اس میں اضافہ ہوا ہے، کچھ قوم پرست تنظیموں نے پاک بھارت جنگ کے دوران بھی بھارت کی سپورٹ کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اس کو چھپاتا بھی نہیں، ان تنظیموں کی مالی مدد بھی کی جا رہی ہے اور ان تنظیموں کا بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ مسائل کے حل میں بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا فوجی حل ہر گز نہیں لیکن مسائل حل کرنے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے، اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی کا ہے اور انشااللہ اس کو شکست دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ 18ویں ترمیم سے پہلے کا ہے، اٹھارہویں ترمیم کے بعد کئی وزارتیں صوبوں کے حوالے کی گئیں، پیپلزپارٹی کا موقف ہے کہ مزید وسائل صوبوں کو دیئے جائیں، وفاق ایف بی آر کی ناکامی کی سزا صوبوں کو نہیں دے سکتا۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کی ناکامی کی سزا ملتان یا سکھر کے عوام کو نہیں دی جا سکتی، وفاق نے جب بھی ٹیکس وصولی صوبوں کے حوالے کی تو ان کی کارکردگی وفاق سے بہتر رہی ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت سے کہا ہے کہ سیلز ٹیکس آن گڈز بھی صوبوں کے حوالے کریں، اگر ٹیکس کا ٹارگٹ پورا نہیں ہوا تو میں سندھ کی جیب سے نقصان بھروں گا، لیکن اگر ہم نے ٹارگٹ سے زیادہ ٹیکس وصول کر لیا تو وہ صوبوں کا ہوگا۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اگر اور کوئی تجویز ہے تو وہ بتائیں، وفاقی حکومت این ایف سی یا مالیات کے حوالے سے جو بھی تجاویز شیئر کرے گی ہم اس کا مشاورت کے بعد جواب دیں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پنشن کٹوتی کے خلاف احتجاج کرنے والے بلاول ہاس آنا چاہیں تو ویلکم، مزوروں کی حامی جماعت پنشنرز کا حق کیسے مار سکتی ہے، آج ہی وزیراعلی صاحب سے اس بارے میں پوچھا ہے، وزیراعلی نے کہا کہ پنشن میں کوئی کٹوتی نہیں کی گئی ہے، کچھ خامیاں تھیں جن کو دور کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے وفاقی حکومت کی سندھ پر تنقید کبھی نہیں سنی، پنجاب حکومت کے وزرا اگر تنقید کرتے ہیں تو امید ہے یہ ان کے ذاتی خیالات ہوں گے لیکن پارٹی پالیسی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ نے اب تک کسی آئینی ترمیم کا ڈرافٹ شیئر نہیں کیا، اگر وہ آئینی ترمیم کرنا چاہتے ہیں تو پیپلزپارٹی سے بات کریں، ہم مشاورت سے فیصلے کریں گے۔
