قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ میں بی آئی ایس پی حکام نے مبینہ بینک ایجنٹس فراڈ سے لاعلمی ظاہر کردی، کمیٹی کو سیکرٹری بی آئی ایس پی نے بتایا مستحقین تک رقوم پہنچانے کیلئے چھ بینک سالانہ ساڑھے 4 ارب روپے سروس چارجز وصول کرتے ہیں۔
چیئرمین میر غلام علی تالپور کی زیر صدارت کمیٹی اجلاس میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ، اخراجات ، فراڈ، اور بدعنوانی کے الزامات زیر بحث آئے ۔ اجلاس میں چیئرپرسن بی آئی ایس پی سینیٹر روبینہ خالد اور سیکرٹری بی آئی ایس پی عامر احمد علی نے شرکت کی۔ بتایا انہیں دس لاکھ روپے کے مبینہ بینک ایجنٹس فراڈ کا کوئی علم نہیں۔ جہاں غفلت پائی گئی، وہاں لازمی کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹو فیکٹر ویری فکیشن کے نفاذ کے بعد مثبت فرق دیکھنے میں آیا ہے ۔ بینکوں سے معاہدے منسوخ کرنے کے انتباہ سے صورتحال میں کافی بہتری آئی ۔ کراچی کے ایک گورنمنٹ اسکول میں بی آئی ایس پی اسٹاف کے مبینہ طور پر رشوت، ہراسانی اور غیر قانونی کٹوتیوں کے الزامات پر حکام نے کہا یہ منظم منصوبہ بندی کے تحت جھوٹ پر مبنی تھے۔ چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ سابق پی او ایس اسٹاف نے چند افراد کے ساتھ مل کر یہ سب کچھ منصوبہ بندی کی۔ اطلاع ملنے پر خود کراچی جا کر تحقیق کی۔ تمام الزامات من گھڑت اور جھوٹے ثابت ہوئے ۔ چیئرپرسن بی آئی ایس پی کے بیان پر قائمہ کمیٹی نے یہ معاملہ نمٹا دیا ۔
