اتوار, جولائی 27, 2025
تازہ ترینافغانستان میں معاشی مشکلات کے باعث مطالعہ کے رجحان میں کمی

افغانستان میں معاشی مشکلات کے باعث مطالعہ کے رجحان میں کمی

بدھ کے روز جب دنیا بھر میں ورلڈ بک اور کاپی رائٹ ڈے منایا جا رہا تھا کابل میں کتابوں کی دکانیں کاروبار میں غیر معمولی کمی کا سامنا کر رہی تھیں۔ اس کی وجہ کتابوں کے شوقین افراد اور مطالعہ کے شائقین کی تعداد میں واضح کمی بتائی گئی ہے۔

افغانستان میں مطالعہ کی ثقافت مختلف عوامل کی وجہ سے مسلسل کم ہو رہی ہے۔ دہائیوں کی جنگ، وسیع پیمانے پر غربت اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے کتابوں کی صنعت پر گہرا اثر ڈالا اور ملک میں مطالعہ کے رجحان کو ماند کر دیا ہے۔

کابل میں کتابوں کی سب سے پرانی دکان سلیمان شاہ کی ہے ۔ وہ 16 سال سے زیادہ عرصہ سے کتابیں  فروخت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں سے تقابل کیا جائے تو کتابوں میں عوامی دلچسپی میں زبردست کمی دیکھی جا سکتی ہے۔

ساؤنڈ بائٹ 1 (دری): سلیمان شاہ، کتاب فروش

’’ ہماری کتابوں کی فروخت میں پہلے کافی استحکام تھا لیکن اب اس میں کمی آ گئی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اپنے عروج کے زمانے کے مقابلے میں ہماری موجودہ فروخت صرف 10 فیصد رہ گئی ہے۔‘‘

   کابل کے مرکز میں واقع کتابوں کی یہ دکان  سال 1974 میں بنائی گئی تھی۔ یہاں 20 ہزار سے زائد کتابوں کا باقاعدہ اور منظم مجموعہ موجود ہے۔ یہ کتابیں ہسپانوی، چینی، پولش، فرانسیسی، اردو اور عربی سمیت مختلف زبانوں میں لکھی گئی ہیں۔

یہ کتابیں تاریخ، طب، سائنس، ثقافت، سیاست، معیشت اور بچوں کی ادبیات کے موضوعات پر مبنی ہیں۔ ان میں سے کچھ کتابیں 300 سال پرانی ہیں۔

ساؤنڈ بائٹ 2 (دری): سلیمان شاہ، کتاب فروش

’’ دنیا بھر میں کتابوں کی قدر کی جاتی ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ افغانستان میں کتابوں کو وہ مقام اور پذیرائی حاصل نہیں ہے۔‘‘

دکان کے ایک اور ملازم ظہور چوپان نے بھی خریداروں کی تعداد میں کمی پر اپنے دکھ کا اظہار کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ملک کی موجودہ معاشی مشکلات کی وجہ سے نوجوان نسل میں مطالعہ کا شوق کم ہوا ہے۔

ساؤنڈ بائٹ 3 (دری): ظہور چوپان، دکان کا ملازم

’’ آج کل بہت کم لوگ ایسے ہیں جو کتابوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ خاص طور پر ایسے لوگ ہیں جن کی معاشی حالت اچھی ہے۔ عین ممکن ہے کہ کم آمدنی والے لوگ بھی کتابیں پڑھنا چاہتے ہوں لیکن وہ کتابیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔‘‘

عوام میں مطالعہ کا ذوق دوبارہ زندہ کرنے اور ادبی ثقافت کے فروغ کے لئے افغان عبوری حکومت نے کتابوں کی مختلف نمائشوں کا اہتمام کیا ہے۔ یہ نمائشیں ہالز میں بھی ہو رہی ہیں اور کھلی جگہوں پر بھی۔ یہ اقدامات خاص طور پر غربت سے سب سے زیادہ متاثرہ طبقے میں مطالعہ کی عادت بڑھانے کے لئے کئے جا رہے ہیں۔

چوپان نے تفصیل سے بتایا کہ کتابوں کی نسبتا کم قیمتوں کے باوجود اس وقت متعدد افغان شہری مالی مشکلات کی وجہ سے خریداری کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

کابل کے مغربی علاقے میں واقع کتابوں کی ایک دکان پر آئے ایک شخص عصمت اللہ رحیمی نے شِنہوا کو بتایا کہ لوگ اس وقت کتابوں پر پیسہ خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

رحیمی نے کہا کہ معاشی مشکلات کے علاوہ سوشل میڈیا کی مقبولیت بھی نوجوانوں کو کتابوں سے دور کر رہی ہے۔ ملک میں مطالعہ کا رجحان پہلے ہی زوال کا شکار تھا، سوشل میڈیا کے باعث اس میں مزید کمی آئی ہے۔

کتابیں، صدیوں سے انسانی تخیل کو جِلا بخشتی آئی ہیں۔ یہ حقیقت اور افسانے کی دنیا کے دروازے کھولتی ہیں تاہم افغانستان میں مطالعہ کبھی بھی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔

بیشتر افراد کے لئے زندگی کی بقاء ہی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ کتابوں کا مطالعہ ان کے نزدیک عیاشی کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی لئے ان کی نگاہیں کتابوں کی ورق گردانی کے بجائےکھانے کے  اگلے لقمے کی تلاش میں لگی ہوتی ہیں۔

کابل سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!