اتوار, جولائی 27, 2025
تازہ ترینعلاقائی جامع اقتصادی شراکت داری امریکہ تحفظ پسندی کا مؤثر انداز سے...

علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری امریکہ تحفظ پسندی کا مؤثر انداز سے مقابلہ کرسکتی ہے

ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری (آر سی ای پی) پر منعقدہ ایک گول میز اجلاس میں لوگ شریک ہیں۔ (شِنہوا)

بیجنگ (شِنہوا) امریکہ کی بڑھتی ہوئی تحفظ پسند پالیسیوں کے دور میں علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری (آر سی ای پی) ایشیا بحرالکاہل میں آزاد تجارت اور کثیرالجہتی کے لئے ایک اہم حامی کے طور پر ابھری ہے۔

علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری کا نفاذ یکم جنوری 2022  کو ہوا تھا یہ ایشیا بحرالکاہل کے 15 ممالک پر مشتمل ہے جن میں آسیان کے 10 رکن ممالک برونائی، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، ملائیشیا، میانمار، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویتنام کے علاوہ ان کے 5 تجارتی شراکت دار چین، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔

دنیا کا یہ سب سے بڑا تجارتی معاہدہ 2.3 ارب افراد یا دنیا کی آبادی کا 30 فیصد کا احاطہ کرتا ہے۔ عالمی جی ڈی پی میں اس کا حصہ تقریباً 30 فیصد یعنی 262 کھرب امریکی ڈالر ہے، اشیاء و خدمات کی عالمی تجارت کا 28 فیصد اور عالمی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے بہاؤ کا 32.5 فیصد ہے۔

امریکہ کی تحفظ پسندی کی سمت منتقلی نے سپلائی چین میں خلل ڈال کر غیر یقینی صورتحال پیدا کی ہے۔ جس میں اتحادیوں پر ٹیکس اور افراط زر تخفیف قانون جیسی صنعتی سبسڈیز شامل ہیں۔

اس پس منظر میں علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری کی تیسری سالگرہ ایشیا بحرالکاہل میں اقتصادی انضمام کے فروغ میں ایک مستحکم قوت کے طور پر اس کی بڑھتی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔

امریکہ نے اپنے اتحادیوں پر بھی درآمدی ٹیکس میں اضافہ کیا ہے جبکہ علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری کا مقصد کسٹمز اور ای کامرس قوانین کو معیاری بناتے ہوئے 90 فیصد بین العلاقائی ٹیکس کا خاتمہ ہے۔

یہ طریقہ کار آسیان ممالک، چین، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان تجارت کو آسان بنارہا ہے۔ اس سے سپلائی چین کی لچک کو تقویت ملی ،  کاروباری مواقع میں اضافہ ہوا اور خطے میں ترقیاتی خلا گھٹ گیا۔ اس نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایس ایم ایز) اور کثیرالقومی اداروں کو درپیش تجارتی رکاوٹیں بھی کم کردی ہیں۔

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!