برطانیہ، جرمنی اور جاپان سمیت دنیا کے پچاس سے زائد ممالک اور خطوں کے تخلیقی ماہرین ’’ہائی کول 2025 گلوبل انٹرپرینیور سمٹ‘‘ میں شرکت کے لئے بیجنگ میں جمع ہو ئے ہیں۔ یہ سمٹ جمعرات کے روز سے ہفتے تک جاری رہے گا۔
تین روزہ "گلوبل انٹرپرینیورز کارنیول” سرمایہ کاروں، کاروباری رہنماؤں اور ممتاز تعلیمی ماہرین کو ایک دوسرے کے خیالات اور تجربات سے آگاہ ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
یہ ایونٹ نئی ابھرتی ہوئی کاروباری کمپنیوں کو مصنوعی ذہانت، نئی نسل کی معلوماتی ٹیکنالوجی، اعلیٰ معیار کی صنعتی پیداوار اور حیاتیاتی علوم کے شعبوں میں اپنی کامیابیاں پیش کرنے کا پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔
بین الاقوامی شرکا کے مطابق یہ سمٹ چین کے بڑھتے ہوئے کھلے پن اور سب کو مواقع فراہم کرنے والے کاروباری ماحول کو اجاگر کرتا ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 1 (انگریزی): مارکوس پینٹزک، نمائش کنندہ
’’چین ہر قسم کی جدید ٹیکنالوجی اور خصوصاً مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ترقی کے اگلے محاذ پر ہے۔ ہائی کول یہاں منعقد ہونے والی سب سے بڑی نمائشوں میں سے ایک ہے جو مختلف شعبوں سے باصلاحیت افراد کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتی ہے۔ اسی لئےہم یہاں ایسے کاروبار تلاش کرنے آئے ہیں جو اعلیٰ تجربہ کار ماہرین کی بنیاد پر جدید حل پیش کر رہے ہیں۔ہم ان سے رابطہ قائم کر کے باہمی تعاون کے نئے مواقع تلاش کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 2 (انگریزی): یوآخِم سٹیو، مہمان
’’کیونکہ میں خود بھی ایک کاروباری ہوں اس لئے میں یہ جاننے میں دلچسپی رکھتا ہوں کہ چین میں کاروباری سرگرمیوں، نئی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے قیام اور نئے کاروباروں کی شروعات کے حوالے سے کیا کچھ ہو رہا ہے۔آج میں اپنے ارد گرد نظر دوڑا رہا تھا۔ میں نے بہت سےاسٹالز اور مختلف یونیورسٹیوں کا دورہ کیا۔میری دلچسپی اس بات میں ہے کہ چین میں تحقیق کو کس طرح ٹیکنالوجی کے شعبے کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔یہاں آپ ہر جگہ جدید حیاتیاتی تحقیق اور ٹیکنالوجی کے ذریعے نئے حل پیش کرنے والےبائیوٹیک اسٹارٹ اپس اور مصنوعی ذہانت کی کمپنیوں کو دیکھ سکتے ہیں جو مل کر کام کر رہی ہیں،باہمی تعاون سے مسائل حل کر رہی ہیں اور علم و تجربات کا تبادلہ کر رہی ہیں۔
یہ بات میرے لئے بہت دلچسپ ہے کیونکہ ہم بھی ایک ایسا پلیٹ فارم تیار کر رہے ہیں جو علم کے تبادلے، باہمی ہم آہنگی اور دنیا کو درپیش حقیقی مسائل کے حل پر مبنی ہے۔یہ واقعی ایک مثالی ماحول ہےجو نئے خیالات کو سمجھنے کے لئے بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔”
بیجنگ سے شِنہوا نیوز ایجنسی کے نمائندوں کی رپورٹ




