چائنہ سوسائٹی فار ہیومن رائٹس سٹڈیز کے نائب صدر اور چائنہ یونیورسٹی آف پولیٹیکل سائنس اینڈ لاء کے صدر ما ہوایڈ جرمنی کے شہر برلن میں ’’نئے اور ابھرتے ہوئے حقوق‘‘ کے سیمینار سے خطاب کر رہے ہیں۔(شِنہوا)
برلن(شِنہوا)چین اور جرمنی، برطانیہ، سویڈن، فرانس، اٹلی، سپین، پرتگال، جمہوریہ چیک سمیت یورپی ممالک کے 60 سے زائد حکام اور انسانی حقوق کے سکالرز نے ’’نئے اور ابھرتے ہوئے حقوق” سے متعلق سیمینار میں شرکت کی۔
سیمینار میں سماجی حقوق، معاشی عدم مساوات، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور انسانی حقوق کے ملاپ اور موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں انسانی حقوق کے تحفظ سمیت اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔
چائنہ سوسائٹی فار ہیومن رائٹس سٹڈیز کے نائب صدر اور چائنہ یونیورسٹی آف پولیٹیکل سائنس اینڈ لا کے صدر ما ہوایڈ نے کہا کہ ابھرتے ہوئے حقوق کا تحفظ انسانی حقوق کی عالمی ترقی میں ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے۔
ما ہوایڈ نے شہریوں کے آن لائن تحفظ کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تحفظ کے فروغ اور ماحول دوست ترقی میں چین کی کوششوں کو اجاگر کیا۔ انہوں نے ’’پہلے انسانیت‘‘ کی حکمت عملی اپنانے کے لئے عالمی تعاون، ابھرتے حقوق کے عالمی نظم و نسق میں عدم توازن سے بچنے کے لئے حقیقی کثیر جہتی تعاون کے فروغ، وسعت اور شفافیت کے ذریعے اتفاق رائے کے فروغ پر زور دیا۔
جرمن تھنک ٹینک شِلر انسٹی ٹیوٹ کی بانی اور چیئرپرسن ہیلگا زیپ۔لا روشے نے انسانیت کے لئے مشترکہ مستقبل کے چین کے وژن کے ساتھ ساتھ عالمی ترقی، عالمی سلامتی اور عالمی تہذیب کے اقدامات کو سراہا۔ یہ اقدامات جدید انسانی ضروریات پوری کرنے کے لئے محدود جغرافیائی مفادات سے بالاتر ہیں۔
سنٹرل ساؤتھ یونیورسٹی ہیومن رائٹس سنٹر کے ڈائریکٹر جیانگ جیان شیانگ نے کہا کہ ابھرتے حقوق کے تصورات کا تنوع عالمی برادری کے ثقافتی تنوع کی عکاسی کرتا ہے۔
جیانگ نے چینی اور یورپی انسانی حقوق کے اداروں اور سکالرز کے درمیان گہرے تعاون اور تبادلوں کے ذریعے نئے امکانات کو اجاگر کیا۔
پہلی مرتبہ 2015 میں منعقد ہونے والا یہ آٹھواں سیمینار چین اور یورپ کے درمیان انسانی حقوق کے حوالے سے تفصیلی تبادلوں اور تعاون کا ادارہ جاتی پلیٹ فارم ہے۔
