امریکی ریاست کیلیفورنیا کی لاس اینجلس کاؤنٹی کے شہر روزمیڈ کے ایک سٹور میں ایک گاہک خریداری میں مصروف ہے۔(شِنہوا)
لندن(شِنہوا)ایک معروف ماہر اقتصادیات نے خبردار کیا ہے کہ زیادہ محصولات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تجارتی کشیدگی عالمی معیشت کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور اسے ترقی کے بجائے کساد بازاری کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
لندن سکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس کے ماہر اقتصادیات آئن بیگ نے کہا کہ اگرچہ محصولات درآمدات پر سیلز ٹیکس کی شکل میں کام کرکے حکومت کی آمدنی میں اضافہ کرسکتے ہیں لیکن یہ درآمدی اشیاء کی لاگت میں بھی اضافہ کرتے ہیں جس سے افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ صارفین ممکنہ طور پر مہنگے ملکی متبادل کا رخ کرتے ہیں۔
انہوں نے شِنہوا کو بتایا کہ محصولات عالمی تجارت میں بھی خلل ڈالتے ہیں کیونکہ یہ پیداوار کو زیادہ موثر بین الاقوامی فراہم کنندگان سے کم موثر مقامی پیداوار کنندگان کی طرف منتقل کرتے ہیں جس سے معاشی ترقی مزید متاثر ہوتی ہے۔
ماہر اقتصادیات نے کہا کہ زیادہ محصولات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تجارتی جنگ "عالمی معیشت کے لئے نقصان دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے معاشی ترقی کے بجائے کساد بازاری اور مندی کی طرف بڑھنے کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ محصولات عالمی سپلائی چین خاص طور پر سرحد پار اجزاء پر انحصار کرنے والی صنعتوں کو بری طرح متاثر کرسکتے ہیں، جیسے امریکی کارساز جو کینیڈین فاضل پرزوں پر انحصار کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ بہت سے امریکی اور دیگر عالمی رہنماؤں نے محصولات کا استعمال کیا ہے لیکن تشویش ان (امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ) محصولات کی شدت اور اس مقصد کے بارے میں ابہام پرہے جس کے لئے محصولات کو نافذ کیا جارہا ہے۔
