پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور حکومتی کمیٹیوں کے درمیان اسپیکر ہاؤس میں مذاکرات شروع ہوگئے ہیں، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق مذاکراتی کمیٹیوں کے اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔
حکومتی کمیٹی میں نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار، سینیٹر عرفان صدیقی، رانا ثنااللہ، نوید قمر، راجا پرویز اشرف اور فاروق ستار شامل ہیں جب کہ پی ٹی آئی کی جانب سے اسد قیصر، اعجاز چوہدری، حامد رضا اور علامہ راجا ناصر عباس شامل ہیں۔
پی ٹی آئی سے مذاکرات سے قبل حکومتی کمیٹی کے ارکان نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے ملاقات کی۔
اسٹیبلشمنٹ کی مذاکرات سے رضامندی کا علم نہیں، ایاز صادق
اسپیکر ایاز صادق نے پی ٹی آئی کے مذاکرات میں حکومت کی غیر سنجیدگی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی کمیٹی میں سینئر سیاستدانوں کو شامل کیا گیا ہے۔
انہوں نے واضح کردیا کہ میرا کام صرف سہولت کاری ہے، دونوں فریق اپنا فیصلہ خود کریں گے۔
اسٹیبلشمنٹ کی مذاکرات میں رضا مندی کے سوال پر ایاز صادق نے دعویٰ کیا کہ ان کا صرف حکومت اور اپوزیشن سے رابطہ ہے۔ انہوں نے بانی پی ٹی آئی سے کمیٹی کی ملاقات کرانے کا معاملہ مذاکرات میں اٹھانے کا مشورہ دے دیا۔
مذاکرات کیلئے حکومت کو پہلا قدم اٹھانا چاہیے تھا، علامہ ناصر عباس
پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن علامہ راجا ناصر عباس نے واضح کیا ہے کہ مذاکرات کی میز پر ہی مسائل کو حل کیا جاتا ہے، ملک اس وقت مسائل میں گھرا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے لیے حکومت کو پہلا قدم اٹھانا چاہیے تھا لیکن بانی پی ٹی آئی عمران خان کا یہ پہلا قدم اٹھانا ان کے محب وطن ہونے کی دلیل ہے۔
عمران خان کی رہائی مطالبات میں شامل ہے، صاحبزادہ حامد رضا
سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ عمران خان کی رہائی ہمارے مطالبات میں شامل ہے، اسٹیبلشمنٹ آن بورڈ ہے یا نہیں، اس کا جواب حکومت دے گی۔
توقع ہے مذاکرات کے اچھے نتائج نکلیں گے، عرفان صدیقی
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے واضح کیا کہ ہم بڑے کھلے دل اور دماغ کے ساتھ اچھی توقعات لے کر مذاکرات کے لیے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی کو ایک طرف رکھتے ہوئے اچھی نیت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور توقع ہے کہ اس کے اچھے نتائج نکلیں گے۔
ایوان میں جو بھی جیسا ہے بات تو کرنی پڑتی ہے، خالد مقبول
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن خالد مقبول صدیقی نے سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی کے غلط اور صحیح ہونے پر اسمبلی میں آنا نہیں چھوڑ سکتے۔
پارلیمنٹ میں گفتگو کے دوران انہوں نے واضح کیا کہ ایوان میں جو بھی جیسا ہے بات تو کرنی پڑتی ہے، فلاں کے غلط اور صحیح ہونے پر آپ اسمبلی میں آنا نہیں چھوڑ سکتے۔
