وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال نے پاکستانی ادویات کی ایکسپورٹ 30ارب ڈالر تک پہنچانے کا عزم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان شعبہ صحت میں جدت کی جانب گامزن ہے فارما سیوٹیکل شعبہ آنیوالے وقت میں معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بنے گا، عوام کو ہیلتھ انشورنس کی فراہمی منصوبے پر کام جاری ہے۔
کراچی ایکسپو سینٹر میں ہیلتھ ایشیاء 2025ء نمائش کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مصطفی کمال نے کہا کہ پاکستان صحت شعبے میں جدت کی جانب گامزن ہے ،ملک میں سب سے زیادہ پوٹینشل فارما سیوٹیکل میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ فارما سیوٹیکل آنیوالے وقت میں معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بنے گی،ادویات اور آلات کی ایکسپورٹ 30 ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم 50کروڑ ڈالر کی ویکسین امپورٹ کرتے ہیں، 99.99فیصد ویکسین دشمن ملک سے آرہی تھیں، جنگ کے بعد دشمن ملک نے ادویات اور ویکسین دینا بند کردیں۔ انہوں نے کہا کہ سروائیکل کینسر کی ویکسین بارے عوامی تصورات غلط ہیں، ویکسین کا شرح آبادی کم کرنے سے کوئی تعلق نہیں، یہ ویکسین دنیا کے 150 ممالک میں لگوائی جارہی ہے، بیس سال بعد پاکستان میں یہ ویکسین آئی تو اس پر اعتراضات ہورہے ہیں، ویکسین لگوانے سے بڑی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کہ پاکستان میں ہر سال 22ہزار ڈاکٹر تیار ہوتے ہیں، پاکستان کے ڈاکٹرز دنیا میں مہارت کی بنا پر مشہور ہیں ،اس تعداد کو بڑھایا جائیگا، دنیا کو 25لاکھ نرسوں کی ضرورت ہے، نرسنگ کونسل کو ری ویمپ کرکے نرسز تیار کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ 210ارب روپے سے پاکستان کے ہر شہری کو ہیلتھ انشورنس مہیا کی جا سکتی ہے جبکہ دس سال میں سرکاری ہسپتالوں کا تصور ختم کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیماریوں پر اخراجات سے غربت بڑھ رہی ہے، ہیلتھ انشورنس کی فراہمی کے منصوبے پر کام کررہے ہیں۔




