اتوار, جولائی 27, 2025
شِنہوا پاکستان سروسبھارتی طالبہ چین کی میڈیکل کے شعبے میں ترقی پر حیران

بھارتی طالبہ چین کی میڈیکل کے شعبے میں ترقی پر حیران

ہیڈ لائن: گلوبل لنک |بھارتی طالبہ  چین کی میڈیکل کے شعبے میں ترقی پر حیران

جھلکیاں:

شیامن یونیورسٹی میں کلینیکل میڈیسن کی بھارتی طالبہ چین میں میڈیکل کے شعبے کی ترقی سے حیران ہے۔دیوراک شیتا مشرا  اپنی تعلیم اور زندگی دونوں سے بہت مطمئن ہیں، وہ مستقبل میں  چین میں  ہی  رہ کر خدمت کرنا چاہتی ہیں۔

تفصیلی خبر

دیوراک شیتا مشرا  کا تعلق بھارت سے ہے اور وہ چین کی شیامن یونیورسٹی میں کلینیکل میڈیسن کی طالبہ ہیں۔

انہوں نے چین کی میڈیکل شعبے میں حیرت انگیز ترقی کا مشاہدہ کیا اور وہ مستقبل میں دونوں ملکوں میں تحقیق جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

ساؤنڈ بائٹ 1 (انگریزی):دیوراک شیتا مشرا  ،بھارتی طالبہ کلینیکل میڈیسن ، شیامن یونیورسٹی

"میں سمجھتی ہوں کہ چین کی میڈیکل اور ٹیکنالوجی میں ترقی، خصوصاً میڈیکل شعبے میں بہت متاثر کن رہی ہے۔ یہاں عوامی ہسپتالوں میں استعمال ہونے والے نئے آلات واقعی بہت جدید ہیں۔ میں نے چین میں تربیت یافتہ ڈاکٹراورصحت کے پیشہ ور افراد کوجدید آلات استعمال کر تے دیکھا، مالی طور پرغیرمستحکم لوگوں کے لئے  ایسے جدید آلات کا استعمال  واقعی حیران کن ہے۔

میں سوچتی ہوں کہ چین نے میڈیکل آلات، ٹیکنالوجی اورنئے علاج کے حوالے سے حکمت عملی میں بہت  ترقی کی ہے۔ میں اس وقت یہاں چند چینی ڈاکٹروں کے ساتھ کچھ  مضامین پر تحقیق کر رہی ہوں۔ اپنی تحقیق سے بھی میں نے دیکھا ہے کہ چین کی ٹیکنالوجی کی ترقی واقعی حیرت انگیز رہی ہے۔”

مشرا نے کہا کہ وہ  چینی شہر میں خوش وخرم زندگی گزار رہی ہیں۔

ساؤنڈ بائٹ 2 (انگریزی): دیوراک شیتا مشرا  ،بھارتی طالبہ کلینیکل میڈیسن ، شیامن یونیورسٹی

  "یہاں میری زندگی کافی آرام دہ ہےاور  مجھے یہاں رہنا پسند ہے۔ یہ جگہ مجھے واقعی گھرجیسی  لگتی ہے، میں تکنیکی طور پر گھر پر نہیں ہوں، لیکن میں شیامن اور چین کے ساتھ ایک دلی  وابستگی محسوس کرتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ میں شاید مستقبل میں بھارت اور چین دونوں میں رہنا چاہوں گی، کیونکہ میں بنیادی طور پر ان دونوں ممالک سے وابستہ ہوں۔ میں نے دونوں ممالک میں کافی وقت گزارا ہے۔

دونوں ممالک نے مجھے بہت کچھ دیا ہے۔ بہت کچھ سکھایا ہے۔ اور اب میں دونوں ملکوں کو اپنے علم سے  کچھ واپس دینا چاہتی ہوں۔”

شیامن، چین سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!