اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشری بی بی کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت کی درخواست منظور کر تے ہوے رہائی کا حکم دے دیا،
بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ی بی بی کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔دوران سماعت ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے دلائل دیے کہ ریاست کو ملنے والا گفٹ جمع کرانا اور ڈیکلیئر کرنا ہوتا ہے، یہ گفٹ ریاست کی ملکیت ہوتا ہے جب تک اسے قانونی طریقے سے خرید نا لیا جائے، ریاست کے ملکیتی تحفے کو خریدنے سے قبل اپنے پاس نہیں رکھا جا سکتا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ موقع ملے تو آذربائیجان جا کر دیکھیں، وہاں ایسا میوزیم ہے جہاں پر گفٹ رکھے جاتے ہیں،
پوری دنیا سے صدور کو جو گفٹ ملتے ہیں وہ وہاں رکھتے ہیں انکی تصاویر کیساتھ، مجھے وہاں ہر محترمہ بینظیر بھٹو کی تصویر نظر آئی، بد قسمتی سے کسی اور کی کوئی تصویر نظر نہیں آئی۔ جسٹس حسن اورنگزیب نے کہا کہ بشری بی بی نے تحائف جمع نہیں کرائے تو بانی پی ٹی آئی کو ملزم کیوں بنایا گیا؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر عمیر مجید نے جواب دیا کہ کیوں کہ پبلک آفس ہولڈر بانی پی ٹی آئی تھے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ یہ تو جسٹس قاضی فائز عیسی کی طرح کا کیس ہے، اس کیس میں بھی شوہر کو بیوی کے کیے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا، برطانوی وزیراعظم بھی تحائف اپنے ساتھ گھر لے گیا ہے، سب نے اسے کہا تو کہتا ہے کہ رولز کے مطابق لیا ہے، اسے کہا گیا کہ رولز اپنی جگہ لیکن تمہارا ایک قد کاٹھ بھی ہے، اگر اب یہ بلغاری سیٹ واپس کر دیں تو کیا ہوگا؟ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ نیب قانون میں تو پلی بارگین ہے لیکن اس قانون میں ایسی کوئی شق نہیں ہے۔
جسٹس حسن اورنگزیب نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ جب سے کیس منتقل ہوا آپ نے کوئی تفتیش کی؟۔ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ نہیں مجھے ضرورت نہیں پڑی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ بہت شکریہ۔
