لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب پراپرٹی اونر شپ آرڈیننس پر عملدرآمد روکتے ہوئے فل بینچ تشکیل دینے کا حکم دے دیا جبکہ آرڈیننس کے تحت دیئے گئے قبضوں کو واپس کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔
پیر کو لاہور ہائیکورٹ میں چیف جسٹس عالیہ نیلم نے عابدہ پروین سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔
عدالتی حکم پر چیف سیکرٹری پنجاب عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل کیوں نہیں آئے، وکیل نے بتایا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بیمار ہیں اس لئے نہیں آئے، اس پر چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ میں بھی بیمار ہوں مجھے بیڈ ریسٹ کہا گیا ہے مگر یہاں بیٹھی ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا لگتا ہے چیف سیکرٹری نے یہ قانون نہیں پڑھا؟ لگتا ہے کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ انہیں تمام اختیارات دے دیئے جائیں، یہ قانون بنا کیوں ہے؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ معاملہ سول کورٹ میں زیر سماعت ہو تو ریونیو آفیسر کیسے قبضہ دلا سکتا ہے؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے سول سیٹ اپ، سول رائٹس کو ختم کردیا، آپ نے عدالتی سپرمیسی کو ختم کردیا ہے، آپ کا بس چلتا تو آئین کو بھی معطل کر دیتے، اگر ڈی سی آپ کے گھر کا قبضہ کسی اور کو دے دیں تو آپ کے پاس اپیل کا کوئی حق نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ آپ کا قانون یہ کہتا ہے کہ ہائیکورٹ معاملے پر اسٹے بھی نہیں کرسکتا، موبائل پر آپ فون کرتے ہیں اور کہتے آجا ورنہ تمہارا قبضہ چلا گیا، آپ یہاں کھڑے ہیں اور آپ کا گھر جا رہا ہو گا؟۔
عدالت نے استفسار کیا کہ قانون کے مطابق جس نے شکایت کردی وہی درخواست گزار ہو گا، کیا یہاں جعلی رجسٹریاں ،جعلی دستاویزات نہیں بنتی ہیں؟ اگر آپ کا پٹواری جعلی دستاویزات نہ بنائے تو سول عدالتوں میں اتنے کیسز دائر ہی نہ ہوں، قانون کے تحت آپ نے ڈسپیوٹ ریزولیوشن کمیٹی بنائی ہے، آپ کی کمیٹی کو لوگوں کو ڈراتی دھمکاتی ہے، آپ کے کمیٹی ممبران لوگوں کو کہتے ہیں کہ قبضہ نہ دیا تو باہر پولیس کا ڈالا کھڑا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کمیٹی ممبران کہتے ہیں کہ 10،10سال قید سزا دیں گے، آپ نے ہمارے سول جج کو دیکھا ہے؟ کیسے خاموشی سے بیٹھا ہوتا ہے، قاضی کا فرض خاموشی سے اپنا کام کرنا ہوتا ہے، عدالت دل سے نہیں بلکہ دماغ سے فیصلے سے کرتی ہے جبکہ آپ کے ڈی سیز خواہشات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے چیف سیکرٹری سے پوچھا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ تمام اختیارات آپ کو دے دیے جائیں، کیا آپ اس قانون کا دفاع کر رہے ہیں؟ سرکاری وکیل نے بتایا کہ ڈی سیز کو قبضے کا اختیار نہیں دیا گیا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سینکڑوں کیسز ہیں جہاں ڈی سیز نے قبضے دیئے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس قانون کے تحت میں یہاں بیٹھی ہوں کوئی درخواست دے اور میرے گھر کا قبضہ بھی ہوجائے گا، جن پٹواریوں کو آپ نے اختیارات دیئے، یہی کل کو قبضہ گروپس کے ساتھ مل جائیں گے۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے پنجاب پراپرٹی اونر شپ آرڈیننس پر عمل درآمد روکتے ہوئے درخواست پر فل بنچ تشکیل دینے کا حکم دیا اور پنجاب پراپرٹی اونر شپ آرڈیننس کے تحت دیئے گئے قبضوں کو واپس کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔




