چینی حکام نے پیر کے روز بتایا ہے کہ ‘دنیا کی چھت’ کہلائی جانے والی چنگھائی تبت سطح مرتفع پر دریافت ہونے والے کتبہ نما پتھر کو چین کا واحد معلوم شدہ چھن شاہی خاندان (221 تا 207 قبل مسیح) کا کندہ شدہ پتھر تسلیم کیا گیا ہے جو اب بھی اپنی اصل جگہ پر محفوظ ہے اور اس تاریخی دور کے سب سے بلند مقام پر موجود نوادرات میں شامل ہے۔
چین کی نیشنل کلچرل ہیریٹیج ایڈمنسٹریشن (این سی ایچ اے) کے مطابق یہ کتبہ چین کے شمال مغربی صوبہ چنگھائی کے ضلع مادو میں جی یارِنگ جھیل کے شمالی کنارے پر 4306 میٹر کی بلندی پر موجود ہے۔ کتبے کی سطح کا رقبہ تقریباً 0.16 مربع میٹر ہے اور اس پر 37 حروف کندہ ہیں۔
سال 2020 میں چنگھائی نارمل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ہو گوانگ لیانگ نے ایک تحقیقاتی مہم کی قیادت کرتے ہوئے اس کتبے کو دریافت کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دریافت ظاہر کرتی ہے کہ لوگ چین کے چھن شاہی دور میں پہلےہی چنگھائی تبت سطح مرتفع پر آنا شروع ہو گئے تھے۔
ساؤنڈ بائٹ 1 (چینی): ہُو گوانگ لیانگ، پروفیسر، چنگھائی نارمل یونیورسٹی
"5 جولائی 2020 کو جب ہم گیارنگ جھیل کے شمالی کنارے پر تحقیقی مہم پر تھے تو ہمیں پہاڑی ڈھلوان پر ایک بڑا ابھرا ہوا پتھر نظر آیا۔ یہ پتھر جھیل اور سڑک دونوں کے قریب تھا۔ اس پر چینی حروف کندہ تھے۔ یہ دریافت ہمارے لئے بالکل غیر متوقع تھی۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ گیارنگ جھیل کے قریب جہاں دریائے زرد کا منبع ہے ہمیں کوئی کتبہ ملے گا۔ خاص طور پر ایسا کتبہ جس کی ابتدا ہی چینی حرف ‘ہوانگ’ (شہنشاہ) سے ہو رہی ہے۔”
چینی اکیڈمی آف سوشل سائنسز (سی اے ایس ایس) کے انسٹی ٹیوٹ آف آرکیالوجی کے محقق ٹونگ تاؤ نے اس کتبے کا مطالعہ کیا۔ رواں برس جون میں اُنہوں نے اس پر ایک مضمون بھی شائع کیا جس نے لوگوں کی بھرپور توجہ حاصل کی ہے۔
ٹونگ کے مطابق اس پتھر پر کندہ تحریر میں چین کو پہلی بار متحد کرنے والے چھن شاہی خاندان کے بادشاہ چھن شِی ہُوانگ کا ذکر ہے، جنہوں نے عمروں کو طول دینے والے "امرِت” کی تلاش میں کیمیا دانوں کو روانہ کیا تھا جو دریائے زرد کے ماخذ علاقے میں واقع گیارنگ جھیل پر بھی رکے تھے۔ تاہم ان کیمیا دانوں کی اس تشریح نے کتبے کی تاریخ کے حوالے سے نئی بحث چھیڑ دی کیونکہ بعض ماہرین کو شبہ تھا کہ پتھر پر موجود یہ تحریر جدید دور کی جعل سازی ہو سکتی ہے۔
اس کے بعد چین کی نیشنل کلچرل ہیریٹیج ایڈمنسٹریشن (این سی ایچ اے) نے ماہرین کا انتظام کیا جنہوں نے موقع پر جا کر تحقیقات کیں، پتھر اور اس کے اردگرد کے ماحول سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کیا اور خصوصی سیمینارز بھی منعقد کئے۔ این سی ایچ اے کے عہدیدار ڈینگ چاؤ کے مطابق ایک گہرےتفصیلی مطالعے کے بعد محققین نے اس بات کی توثیق کر دی کہ یہ تحریر واقعی چھن شاہی خاندان کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔
ڈینگ نے نشاندہی کی کہ اعلیٰ معیار کی معلوماتی ٹیکنالوجی اور معدنی و عنصری تجزیے کے ذریعے محققین نے اس امکان کو رد کر دیا کہ یہ نقوش جدید دھاتی اوزاروں سے تراشے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کندہ شدہ تحریروں کے اندرونی حصے اور پتھر کی سطح پر ثانوی معدنیات موجود ہیں جو طویل عرصے کے قدرتی موسمی اثرات کو ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ کسی حالیہ تراش خراش کے امکان کو رد بھی کرتی ہیں۔
کیمیائی تجزیے سے معلوم ہوا کہ یہ کتبہ کوارٹز سینڈ اسٹون پر مشتمل ہے جو اپنی سختی اور موسمی اثرات کے خلاف مزاحمت کے لئے مشہور ہے۔
ڈینگ نے بتایا کہ یہ کتبہ بڑی حد تک محفوظ ہے اور اس کے زیادہ تر حروف اب بھی واضح طور پر پڑھے جا سکتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس پر درج مکمل تاریخ موجودہ تاریخی ریکارڈز میں نہیں ملتی جس سے تاریخ کے خلا کو پُر کرنے میں مدد ملی ہے۔ اس طرح یہ کتبہ تاریخی، فنی اور سائنسی لحاظ سے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔
شی ننگ، چین سے شِنہوا نیوز ایجنسی کے نمائندوں کی رپورٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیکسٹ آن سکرین:
چین میں 2200 سال پرانا تاریخی کتبہ نما پتھر دریافت ہوا ہے
یہ نایاب کتبہ قدیم چھن خاندان کے دور سے تعلق رکھتا ہے
دریافت دنیا کی بلند ترین تبت چنگھائی سطح مرتفع پر ہوئی
یہ بلند و بالا علاقہ دنیا کی چھت کے نام سے جانا جاتا ہے
کتبہ آج بھی اپنی اصل جگہ پر محفوظ حالت میں موجود ہے
ماہرین نے کندہ شدہ تحریروں کو مستند اور قدیم قرار دیا
پتھر کی سطح پر ثانوی معدنیات کے واضح آثار ملے ہیں
یہ آثار طویل عرصے کے قدرتی موسمی اثرات کو ظاہر کرتے ہیں
کتبے کی نمایاں بات اس پر تاریخ کا مکمل اندراج ہے
یہ تاریخی دریافت سائنسی، فنی اور تحقیقی لحاظ سے نہایت اہم ہے

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link