پشاورہائیکورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزائوں کیخلاف تمام درخواستیں خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ ملٹری کورٹ سے سزا اس وقت سے شمار ہوگی جس وقت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل دستخط کرے گا ۔جمعہ کو پشاور ہائی کورٹ میں جسٹس نعیم انور اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال پر مشتمل 2رکنی بینچ نے ملٹری کورٹ کی سزائوں کے خلاف دائر 29رٹ درخواستوں پر سماعت کی ۔
دورانِ سماعت عدالت میں درخواست گزاروں کے وکلا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنااللہ اور عدالتی معاون شمائل احمد بٹ پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گرفتار ملزمان کو ملٹری کورٹس نے مختلف نوعیت کی سزائیں دی ہیں، ملزمان اپنی سزائیں پوری کرچکے ہیں، اب انہیں رہا نہیں کیا جا رہا ہے ،قانون کے تحت دوران حراست گزارا گیا عرصہ بھی قید میں شمار کیا جاتا ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سزائیں خصوصی قانون کے تحت دی جائیں ان میں 382بی کا فائدہ ملزمان کو نہیں دیا جاتا،گرفتار ملزمان دہشت گرد ہیں ،کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کورٹ کے لارجر بینچ اور پشاور ہائیکورٹ کے ایک بینچ نے بھی قرار دیا ہے کہ سپیشل قوانین کے تحت دی گئی سزائوں میں 382بی کا فائدہ نہیں مل سکتا۔
سزائیں اسی وقت شمار ہوں گی جس وقت ان ملزمان کی سزائوں پر دستخط ہوگا۔انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی جانب سے دی گئی سزائیں خصوصی قانون کے دائرہ میں آتی ہیں۔ ملٹری کورٹ کے قوانین میں ہائیکورٹ صرف یہ دیکھتی ہے کہ جو سزا دی گئیں ہیں وہ ان سیکشن کے تحت دی گئی ہیں یا نہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کہا کہ درخواست گزاروں کو دی گئی سزا آرمی ایکٹ کے تحت دی گئی ہے ، یہ دستخط کے دن سے ہی شمار ہوگی۔
خصوصی قانون کے تحت سزا یافتہ ملزمان 382 بی کا فائدہ حاصل کرنے کے حقدار نہیں۔بعد ازاں عدالت نے ملٹری کورٹ سے سزائوں کیخلاف تمام ملزمان کی درخواستیں خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ملٹری کورٹ سے سزا یافتہ ملزمان کی سزا اس وقت سے شمار ہوگی جس وقت ان سزائوں پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل دستخط کرے گا ۔
