پیر, جولائی 28, 2025
تازہ ترینسفارتکاروں کی جانب سے چین کی معاشی تبدیلی کی کاوشوں کا خیرمقدم

سفارتکاروں کی جانب سے چین کی معاشی تبدیلی کی کاوشوں کا خیرمقدم

ہیڈ لائن:

سفارتکاروں کی جانب سے چین کی معاشی تبدیلی کی کاوشوں کا خیرمقدم

جھلکیاں:

معاشی تبدیلی کے حوالے سے چین کی کوششیں ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک  روشن مثال ہیں۔ اس حوالے سے غیر ملکی سفارتکار کیا کہتے ہیں؟ آئیے اس کی تفصیل اس ویڈیو میں جانتے ہیں۔

شاٹ لسٹ:

1۔ ورکشاپ کے مختلف مناظر

2۔ ساؤنڈ بائٹ 1 (انگریزی): جاؤکوئن البرٹو  پیرز آئسٹیرن، ڈی پی آر، سفیر، مستقل مشن بولیویرین جمہوریہ وینزویلا ، اقوام متحدہ

3۔ ساؤنڈ بائٹ 2 (انگریزی): کیوا زویا اواپینڈا کاٹ جومز، سینئر اکانومسٹ، دفتر خصوصی مشیر برائے افریقہ، اقوام متحدہ

تفصیلی خبر:

چین کے شہر شیامن میں جدید صنعت کاری اور نئی معیاری پیداواری قوتوں کے فروغ کے حوالے سےمنعقد ہونے والی ورکشاپ ختم  ہو گئی ہے۔یہ ورکشاپ ایک ہفتہ جاری رہی ۔ اس میں 29 ممالک سے سفارتکاروں اور حکام نے شرکت کی۔

 ورکشاپ کے شرکا نے بیجنگ، شیامن اور چھوان ژو کا دورہ کیا۔متعدد سفارت کاروں کااس موقع پر کہنا تھا کہ چین کی جدید صنعت کاری اور نئی معیاری پیداواری قوتیں عالمی ترقی میں نئی طاقت کا اضافہ کر رہی ہیں۔

ساؤنڈ بائٹ 1 (انگریزی): جاؤکوئن البرٹو  پیرز آئسٹیرن، ڈی پی آر، سفیر، مستقل مشن بولیویرین جمہوریہ وینزویلا ، اقوام متحدہ

’’ چین کی صنعتی میدان میں ترقی دنیا کے لئے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ یہ انتہائی وسیع ہے۔ چین پوری انسانیت کے لئے ایک بڑی منڈی فراہم کرتا ہے۔ اس لئے ہم اس حوالے سے تعاون کو تیار ہیں۔ ہم یہاں بہت کچھ سیکھ رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت، ڈرونز اور طبی شعبے میں ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جو وینزویلا کو درکار ہوں گی ۔اس طرح ہم نئی صنعت کاری کے عمل کو معیاری مارکیٹ کے ساتھ حاصل کر سکیں گے۔‘‘

ساؤنڈ بائٹ 2 (انگریزی): کیوا زویا اواپینڈا کاٹ جومز، سینئر اکانومسٹ، دفتر خصوصی مشیر برائے افریقہ، اقوام متحدہ

’’ مجھے کہنا پڑے گا کہ میں چین کی معاشی تبدیلی سے بہت متاثر ہوں۔ چین کی معاشی تبدیلی ترقی پذیر دنیا  خاص طور پر افریقی ممالک کے لئے ایک مثال فراہم کرتی ہے۔ اس نے ایک معاشی ترقی کےکامیاب ماڈل کے ساتھ ساتھ صنعتی تبدیلی کے لئے بھی ایک عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ چین پہلے ہی صاف توانائی کی  منتقلی میں الیکٹرک گاڑیوں اور بیٹریوں کے بڑے پیداواری مراکز  کے طور پر ابھرا ہے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ افریقی ممالک چین کے ساتھ شراکت داری کا فائدہ اٹھا کر ٹیکنالوجی کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں اور خود کو ایک اہم کھلاڑی کے مقام پر لا سکتے ہیں۔‘‘

شیامن، چین سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!