چین کے شہر دُونہوانگ کے دورے پر آئے ترک عہدیدار کے مطابق چین کی جانب سے اپنے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات انتہائی متاثرکن ہیں۔
دُونہوانگ وہ تاریخی مقام ہے جہاں تین یونیسکو عالمی ثقافتی ورثے اور 260 سے زائد آثارِ قدیمہ کے مقامات موجود ہیں۔ ان میں موگاؤ غاریں خاص طور پر اپنی صدیوں پرانی بدھ متی فنکارانہ نقاشیوں، فارسی اثرات اور یونانی طرزِ تعمیر کے امتزاج کے باعث مشہور ہیں۔
ترک شہر مانیسا کے مئیر کے نمائندے بُراق دستے “گلوبل مئیرز ڈائیلاگ” میں شرکت کے لیے دُونہوانگ آئے ہوئے ہیں۔
ساؤنڈ بائٹ (انگریزی): بُراق دستے، نمائندہ مئیر مانیسا، تُرکی
"سب سے پہلا تاثر یہی تھا کہ چینی حکومت اپنے ثقافتی ورثے کے تحفظ کو کتنی اہمیت دے رہی ہے۔ وہ موگاؤ غاروں کو ریت کے طوفانوں سے بچانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔
صدیوں تک یہ تاریخی اور تعمیراتی مقامات کسی باقاعدہ نگرانی یا تحفظ کے بغیر رہے ہیں۔ لیکن اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کس طرح ریت کی حرکت کو قابو میں رکھتے ہیں اور کیوں یہ ضروری ہے تاکہ یہ قیمتی آثار اور ثقافتی ورثہ محفوظ رہیں۔
یہ کوئی چھوٹا علاقہ نہیں ہے۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ سیاحتی موسم میں یہاں روزانہ صرف چھ ہزار زائرین کو داخلے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اصل مقصد سیاحت سے آمدنی حاصل کرنا نہیں بلکہ ثقافتی ورثے کا تحفظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اس پر اتنا سرمایہ لگا رہی ہے۔
انہوں نے ریت کی حرکت روکنے کے مختلف طریقے اپنائے ہیں تاکہ ریت وہاں موجود تاریخی نوادرات، قدیم نسخوں اور دیواری نقش و نگار کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ یہ واقعی حیران کن اور متاثرکن ہے۔ چین واقعی قابلِ تعریف ہے۔”
لان ژو، چین سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ
