غزہ شہر میں کویت ہلال احمر سوسائٹی کے ایک فیلڈ ہسپتال میں الاہلی عرب ہسپتال سے لائے گئے فلسطینی مریض زیرعلاج ہیں-(شِنہوا)
غزہ(شِنہوا)غزہ شہر کے الشفا ہسپتال میں ایک عارضی خیمے کے اندر زنگ آلود سٹریچر پر 38 سالہ خضر ابو عجوہ کئی دنوں سے تکلیف میں پڑا ہواہے اور سرجری کا منتظر ہے جو شاید کبھی نہیں آسکے۔
ابو عجوہ جو 4 بچوں کا باپ ہے، غزہ شہر کے مشرق میں شجاعیہ محلے میں اسرائیلی گولہ باری سے شدید زخمی ہوا تھا۔ ان کے دائیں ٹانگ کو خون سے لت پت پٹی میں لپیٹا گیا تھا اور انہیں صرف بنیادی درد کش دوائیں دی جارہی تھیں کیونکہ ضرورت سے زیادہ کام کرنے والے طبی عملے کو درجنوں دیگر زخمی مریضوں کی دیکھ بھال بھی کرنی پڑتی ہے۔
ابو عجوہ نے شِنہوا کو بتایا کہ طبی عملے نے مجھ سے کہا کہ مجھے فوری سرجری کی ضرورت ہے لیکن آپریشن تھیٹر میں کوئی جگہ نہیں ہے اور ہسپتال میں کافی ڈاکٹر نہیں ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرا جسم سڑ رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ زخم انفیکشن کا شکار ہو جائے گا یا کیڑے نکل آئیں گے، جیسا کہ میرے آس پاس کے دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوا۔
ابو عجوہ کے ارد گرد بہت سی عورتیں اور بچے زمین پر یا سٹریچر پر لیٹے ہوئے تھے۔ ان میں 11 سالہ احمد الکلانی بھی شامل تھا جس کی بائیں ٹانگ 3 ہفتے قبل غزہ شہر کے علاقے زیتون میں اسرائیلی گولہ باری کے نتیجے میں کٹ گئی تھی۔
اس کی ماں ام احمد اس کے پاس بیٹھی آہستہ سے اس کا سر چوم رہی تھی۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کئی دنوں سے کسی ڈاکٹر کو نہیں دیکھا ہے۔ زخم کھلا ہے اور بدبودار ہورہاہے۔
ام احمد اپنے بیٹے کو زخمی ہونے کے بعد پہلے الاہلی عرب ہسپتال لے گئی تھی لیکن جلد ہی یہ ہسپتال خود اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن گیا۔
گزشتہ اتوار کو اسرائیلی فضائی حملے میں غزہ شہر کے الاہلی ہسپتال کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں اہم طبی آلات کو نقصان پہنچا تھا اور اسے مجبوراً بند کردیاگیا ہے۔
الشفا ہسپتال کے ڈائریکٹر محمد ابو سالمیہ نے شِنہوا کو بتایا کہ الاہلی عرب ہسپتال کی تباہی کے بعد ہم اپنی خدمات کو خیموں تک پھیلانے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ مریضوں کا دباؤ بہت زیادہ ہے۔
زخمی مریض اب الشفا کے صحن میں جمع ہو رہے ہیں۔ صفائی ستھرائی کے ناقص حالات میں مکھیاں کھلے زخموں پر بیٹھ جاتی ہیں جبکہ فضا میں خون کی بدبو پھیلی ہے۔
غزہ کے فیلڈ ہسپتالوں کے سربراہ مروان الحمس کے مطابق اسرائیلی حملوں نے غزہ کے صحت کے شعبے کو تباہ کر دیا ہے۔
انہوں نے شِنہوا کو بتایا کہ ہم آرتھوپیڈک کے 83 فیصد اور جنرل سرجری کے 73 فیصد سہولت سے محروم ہوگئے ہیں۔ 80 فیصد سے زیادہ ہسپتال یا تو جزوی طور پر یا مکمل طور پر خدمات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔
