سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں منعقدہ عالمی اقتصادی فورم( ڈبلیو ای ایف) میں لوگ شریک ہیں ۔(شِنہوا)
ڈیووس ، سوئٹزرلینڈ ( شِنہوا) عالمی اقتصادی فورم ( ڈبلیو ای ایف) کے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ چین نے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی اور صنعت میں اہم کامیابیاں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے عالمی نظم و نسق میں بھی مثبت کردار ادا کیا ہے۔
’’ ذہین دور کے لئے تعاون‘‘ کے موضوع پر 2025 کے عالمی اقتصادی فورم کا سالانہ اجلاس پیر سے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں شروع ہوا ہے۔
گریٹر چائنہ آف دی ڈبلیو ای ایف کے چیئر مین چھن لی منگ نے شِنہوا کے ساتھ ایک تحریری انٹرویو میں کہا ہے کہ اگلے 10 سال میں مصنوعی ذہانت کے عالمی اقتصادی ترقی، صنعتی تبدیلی، سماجی روزگار، موسمیاتی حالات اور عالمی تعاون پر گہرے اثرات ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ذہین روبوٹس، ذہین تخلیق، اسمارٹ تعلیم اور اسمارٹ طبی نگہداشت جیسے شعبوں میں مصنوعی ذہانت کے تیز رفتار اطلاق سے صنعتی ترقی میں تیزی آئی اور معاشرے میں وسیع پیمانے پر اختراعی مواقع کھلے۔
چھن نے کہا کہ چین کی بنیادی مصنوعی ذہانت کی صنعت تقریباً 600 ارب یوآن (82 ارب امریکی ڈالر) تک پہنچ چکی ہے جو چپس، الگورتھمز، ڈیٹا، پلیٹ فارمز اور اطلاق جیسے اپ اسٹریم اور ڈاؤن اسٹریم رابطوں کا احاطہ کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین کا مصنوعی ذہانت کے عالمی نظم و نسق میں بھی فعال کردار ہے اور وہ عالمی اقتصادی فورم اور دیگر عالمی تنظیموں کے ساتھ تعاون کرکے بصیرت کا اشتراک اور تعاون کو فروغ دے رہا ہے۔
