سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم کا لوگو دیکھا جاسکتا ہے-(شِنہوا)
بیجنگ(شِنہوا)’’دنیا کو کیا ہوگیا ہے اور ہمیں کیسے نمٹنا چاہئے؟ ‘‘
چینی صدر شی جن پھنگ نے پہلی مرتبہ سوچنے پر مجبور کرنے والا یہ سوال 2017 میں کیا۔20 جنوری سے شروع ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم(ڈبلیو ای ایف) کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لئے جب سیاسی اور کاروباری رہنما ڈیووس میں جمع ہو رہے ہیں،اس سوال کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
2017 کے بعد شی نے 3 مرتبہ ڈبلیو ای ایف میں شرکت کی اور بصیرت سے بھرپور تقاریر کیں،عالمی چیلنجز کے حوالے سے قیمتی تجزیات اور عالمی ترقی و خوشحالی کا ویژن پیش کیا۔
2017 میں جب شی نے معاشی عالمگیریت پر واضح انداز میں زور دیا،دنیا میں تجارتی تحفظ پسندی میں تازہ اضافہ دیکھا گیا۔کئی سال میں تحفظ پسندی اور معاشی قوم پرستی نے تنزلی کا شکار عالمی معیشت پر اثر ڈالنا جاری رکھا۔
کئی سال میں چین نے اپنی تجاویز کو باعمل اقدامات میں تبدیل کیا ہے۔بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو(بی آر آئی) اور گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو جیسے چین کے تجویز کردہ اقدامات نے عالمی بالخصوص عالمی جنوب کی ترقی کو نئی تحریک دی ہے۔
اب تک چین نے 150 سے زائد ممالک کے ساتھ اعلیٰ معیار کی بی آر آئی شراکت داریاں قائم کی ہیں اور ترقیاتی امداد کی مد میں تقریباً 20 ارب امریکی ڈالر کے ساتھ ایک ہزار 100 سے زائد منصوبوں میں تعاون کیا۔
چین کئی سال سے آزادانہ عالمی تجارت کی وکالت کر رہا ہے۔اس سال جنوری تک چین 30 ممالک یا خطوں کے ساتھ آزادانہ تجارت کے 23 معاہدے کر چکا ہے۔
چین نے خاطر خواہ اقدامات کے ذریعے عالمی امن کی کوششوں میں فعال کردار ادا کیا۔چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی پہلی قرارداد کی منظوری میں کلیدی کردار ادا کیا۔اس نے غزہ میں انسانی امداد کے کئی قافلے بھجوائے اور تمام فلسطینی شراکت داروں پر مشتمل مفاہمت کے فروغ میں اہم پیشرفت کی۔
درحقیقت بڑھتے ہوئے عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے شی نے انسانیت کے لئے مشترکہ مستقبل کے حامل معاشرے کے قیام کا ویژن پیش کیا۔انہوں نے اعلیٰ معیار کے حامل بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کی حمایت کی اور عالمی ترقی،عالمی سلامتی اور اور عالمی تہذیب کی مہمات کی تجاویز پیش کیں۔
