سینیٹ کا اجلاس چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیرصدارت شروع ہوا۔ سینیٹ اجلاس میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کی تعداد 64 ہو گئی۔
اجلاس میں وقفہ سوالات معطل کیے گئے۔ سینیٹر اسحاق ڈار نے وقفہ سوالات معطل کرنے کی تحریک پیش کی۔ جسے اکثریتی رائے سے منظور کر لیا گیا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئینی ترمیم پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی گئی۔ آئینی ترمیم ایوان میں پیش کر کے بحث کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ سمجھتا ہوں کہ پارلیمان کی بالادستی اور آزادی پر ایک طرح سے کھلا عدم اعتماد بھی تھا اور حملے سے کم نہیں تھا۔ عجلت میں 19ویں ترمیم کی گئی۔ اور اس میں کمپوزیشن کو چینج کر دیا گیا۔
سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جس میں کمیشن کا حجم ایک ادارے کی طرف یعنی اعلیٰ عدالت کی طرف کر دیا گیا۔ اور پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات میں بھی کمی کر دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمان اور دیگر تنظیموں پر تنقید کی اور کہا گیا کہ 18 ویں ترمیم روح نہیں تو اس کے قریب تر کیا جائے۔ پچھلے 6 سے 8 ہفتوں میں ڈسکشنز ہوئیں اور اس کے مطابق 4 سینئر ججز مشتمل ہونے کے ساتھ 4 پارلیمانی ممبرز جائیں گے۔ جن میں 2 اس ایوان سے اور 2 قومی اسمبلی سے شامل ہوں گے۔
ایوان بالا میں حکومتی بینچوں پر اس وقت پیپلز پارٹی کے 24، ن لیگ کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 اور ایم کیو ایم کے 3 سینیٹرز موجود ہیں جبکہ حکومت کو 4 آزاد ارکان، اے این پی کے 3، نیشنل پارٹی اور ق لیگ کے 1،1 رکن کی حمایت بھی حاصل ہے۔
حکومتی دعوے کی بات کی جائے تو ان کے مطابق اس وقت 59 ارکان موجود ہیں جبکہ جے یو آئی (ف) کی حمایت کی صورت میں یہ تعداد 64 ہوجائے گی۔
حکومت کو اب یہ مشکل درپیش ہے کہ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کے ووٹ نہ دے سکنے کے باعث حکومتی ووٹ کی تعداد 63 بن رہی ہے، جسے فی الحال ایک ووٹ کی کمی کا سامنا ہے۔
واضح رہے حکومتی اتحاد کو سینیٹ سے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کےلیے دو تہائی یعنی 64 ووٹ درکار ہیں۔
