اسلام آباد: وفاقی وزیراطلاعات و نشریات عطاتارڑ نے کہا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے تحت کیسزکے پراسیس میں شفافیت آئے گی، اب پہلے آنیوالا کیس پہلے سماعت کیلئے مقررہوگا، ججز کمیٹی کی سربراہی چیف جسٹس کریں گے، سینئر جج اور چیف جسٹس کا مقررکردہ جج کیس سماعت کیلئے مقررکرے گا،چین کا روہی گروپ دو مراحل میں پاکستان میں ٹیکسٹائل شعبے میں 7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، 3 سے 5 لاکھ افراد روزگار سے مستفید ہوں گے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات عطاء تارڑ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی آج چین کے بڑے کاروباری ادارے روہی گروپ سے ملاقات ہوئی ہے جو پاکستان میں ٹیکسٹائل کے متعدد یونٹ لگائے گا، پہلے مرحلے میں 2 اور دوسرے مرحلے میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ روہی گروپ سندھ اور پنجاب میں ٹیکسٹائل پارک قائم کرے گا جس سے 3 سے 5 لاکھ افراد کو روزگار ملے گا۔انہوں نے بتایا کہ اس سے پاکستان کی ایکسپورٹس کو بڑھاوا ملے گا، پوری دنیا میں پاکستان کی ٹیکسٹائل کو پہنچایا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ صدر مملکت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس پر دستخط کر دیئے ہیں، عدالتی نظام کو مزید شفاف بنانے کیلئے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس ضروری ہے،ایکٹ میں مناسب سمجھا گیا کہ ترمیم کی جائے، 184(3) کے تحت جو کیسز آئیں گے ان میں تحریری طور پر بتانا ہوگا کہ یہ عوامی اہمیت کا حامل کیس کیوں ہے؟،184 (3)کے تحت اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر کیس کے دوران جج جو بھی کہیں گے اس کا ٹرانسکرپٹ تیار کیا جائے گا اور وہ تحریر عوام کو دستیاب ہوگی، اس سے کیسز کے پراسیس میں شفافیت آئے گی،لوگ دیکھ سکیں گے کہ کیا ریمارکس پاس کئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام کو مزید شفاف بنانے کیلئے یہ ضروری ہے، اب جو کیس پہلے آئے گا وہ پہلے سماعت کیلئے مقرر ہوگااب یہ ممکن نہیں ہوگا کہ کسی کیس کو قطار توڑ کر سماعت کیلئے مقرر کردیاجائے۔
انہوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس کیساتھ سینئر ترین ججز موجود ہوں گے،اس میں تبدیلی کی گئی ہے، اب اس کی سربراہی چیف جسٹس کریں گے، سینئر جج ممبر ہوں گے اور جو تیسرے رکن ہیں سپریم کورٹ کے جج میں سے کسی ایک کو وقتا فوقتا شامل کیا جائے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر تیسرے ممبر موجود نہیں ہوتے تھے تو کیسز تاخیر کا شکار ہوتے تھے، جیسے 63(اے) کا کیس ہے اس پر کام نہیں ہوسکا، آئین کی بالادستی کیلئے اس بارے کوئی فیصلہ آنا چاہئے تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ تمام ترامیم عوام اور عدالتی نظام کو شفاف بنانے کیلئے کی گئی ہے، اس سے عوام کی زندگی میں بہتری آئی گی اور دنیا میں ہمارے عدالتی نظام کا نمبر بھی بہتر ہوگا۔
