ڈی آئی خان: سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمن نے بغیر کسی سیاسی اتحاد کے اپنی تحریک خود چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اب داخلی معاملات سنجیدگی سے لینے کے قابل ہوئی ہے،2018ء کے بعد انتخابی نتائج فوجی سربراہ کی منشاء کے مطابق آرہے ہیں جو آمرانہ انداز ہے،ہمیں سیاست میں مداخلت نہ کرنے کی ضمانت دی جائے تو اپنی شکست پر اعتراض نہیں،حکومت سے مذاکرات سے انکار نہیں مگر ان کے پاس اختیار نہیں،عوام کا مقدمہ قومی سطح پر لڑنا چاہتا ہوں مگر ہمارے اعتراضات،تحفظات دور کئے جائیں۔تفصیلات کے مطابق ڈی آئی خان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمن نے بغیر کسی سیاسی اتحاد کے اپنی تحریک خود چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہہ ماضی قریب میں سیاسی اتحادوں کے تجربے اچھے نہیں رہے ہیں، ہم مزید نہ کسی کو شرمندہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہونا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا کردار ہم پارلیمنٹ کے اندر بھی ادا کریں گے اور باہر بھی، ایشو ٹو ایشو دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے اب جا کر اپنے داخلی معاملات کو سنجیدگی سے لیا ہے شائد وہ اب اس قابل جا کر ہوئے ہیں، ہم ان معاملات میں ان کے فریق نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2018ء کے بعد اسمبلیاں اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہیں،اس سیاست میں جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے، 2018ء کے بعد فوجی سربراہ کی منشاء کے مطابق انتخابی نتائج آرہے ہیں جو آمرانہ انداز ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت،امریکا اور برطانیہ میں یہ سوال کیوں پیدا نہیں ہوتا؟ ہمارے ہاں ہر الیکشن متنازع ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب تو یہاں باقاعدہ اسمبلیاں خریدی گئی ہیں اب یہاں کون سیاست کر سکتا ہے؟، جہاں صرف پیسا ہی ایمان بن جائے اور پیسا ہی سیاست ہو،عوامی رائے اور نظریات کی اہمیت ہی نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ اب عوامی اسمبلیوں کی اہمیت ہوگی کہ آپ کے پاس اسٹریٹ پاور کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی سیاسی عدم استحکام معیشت پر اثر انداز ہو رہا ہے اگر اسٹیٹ ہی غیر مستحکم ہوجائے تو بنگلا دیش جیسے حالات پیدا ہوتے ہیں، بنگلا دیش میں 20 دن کے اندر ہی کایا پلٹ گئی کیونکہ وہاں مینڈیٹ ایک ہوا کا غبارہ تھا، ہم بنگلا دیش جیسے حالات کی جانب نہیں جانا چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں سیاست میں مداخلت نہ کرنے کی ضمانت دے دی جائے تو ہمیں اپنی شکست پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، ہمیں پورے ملک کے انتخابی نتائج پر اعتراض ہے صرف پنجاب بلوچستان نہیں بلکہ سندھ اور خیبرپختونخوا پر بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس حکومت سے مذاکرات سے کوئی انکار نہیں لیکن ان کے پاس اختیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف، شہباز شریف سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن جو بااختیار ہیں وہ مذاکرات کیلئے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام کا مقدمہ قومی سطح پر لڑنا چاہتا ہوں لیکن اس پر ہمارے اعتراضات اور تحفظات دور کئے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا بجٹ اب آئی ایم ایف بناتا ہے ہماری معیشت ان کے قبضے میں چلی گئی ہے، ایک زمانہ تھا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا تھا،وہ گھٹنے میں آکر بیٹھ گئے تھے، آج وہ ہماری گردن سے پکڑتے ہیں اور سانس نہیں لینے دے رہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کالونیل سسٹم ختم ہو گیا ہے، غریب ممالک کو معاشی، دفاعی اور سیاسی طور پر کنٹرول کیا جاتا ہے اور اس سے جان خلاصی کیلئے اب قوم کو متحد ہونا ہوگا۔
