امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم اسمتھ سونین نیشنل میوزیم آف ایشین آرٹ نے جمعہ کے روز چین کے قومی ادارہ برائے ثقافتی ورثہ کو متحارب ریاستوں کے دور سے تعلق رکھنے والے زیدانکو ریشمی مخطوطات کی جلد دوم "وو شینگ لینگ” اور جلد سوم "گونگ شو ژان” باضابطہ طور پر واپس کر دی ہیں۔
قدیم ریشمی مخطوطات کی حوالگی کے حوالے سے یہ تقریب واشنگٹن ڈی سی میں واقع چین کے سفارت خانے میں منعقد ہوئی ہے۔
یہ ریشمی مخطوطات سال 1942 میں چین کے صوبہ ہونان کے شہر چھانگ شا کے علاقے ’زیدان کو‘ سے دریافت ہوئے تھے۔ انہیں سال 1946 میں غیر قانونی طور پر امریکہ منتقل کر دیا گیا تھا۔ متحارب ریاستوں کے دور (475 قبل مسیح تا 221 قبل مسیح) سے تعلق رکھنے والے یہ واحد ریشمی مخطوطات ہیں جو اب تک دریافت ہوئے ہیں۔
’زیدان کو‘ ریشمی مخطوطات تین جلدوں پر مشتمل ہیں۔ اس بار دوسری اور تیسری جلدیں یعنی "وو شِنگ لِنگ” اور "گونگ شو جان” واپس کی گئی ہیں۔
چین میں متحارب ریاستوں کے دور سے متعلق دریافت ہونے والے یہ ’زیدان کو‘ ریشمی مخطوطات اب تک کے واحد معروف ریشمی مخطوطات ہیں جو 2 ہزار سال سے بھی زیادہ پرانے ہیں۔ یہ اب تک دریافت ہونے والا قدیم ترین ریشمی متن ہےاور اسےحقیقی معنوں میں کلاسیکی چینی کتاب کی اولین مثال سمجھا جاتا ہے۔قدیم چینی رسم الخط اور ادب کے مطالعے میں بھی اس کی بنیادی اہمیت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ چین کی علمی روایت اور فکری تاریخ کا فہم حاصل کرنے میں بھی نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
چین کے نائب وزیر ثقافت و سیاحت اور قومی ادارہ برائے ثقافتی ورثہ کے سربراہ راؤ چوان نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ "وو شینگ لینگ” اور "گونگ شو ژان” کی واپسی نے اس بات کو یقینی بنا دیا ہے کہ یہ قیمتی نوادرات اب اس زمین پر مکمل تحفظ اور تحقیق کے تحت رکھے جا سکیں گے جہاں سے یہ دریافت ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان قدیم ریشمی مخطوطات کی واپسی سے ان کے ثقافتی ورثے کی زیادہ بہتر اور جامع انداز میں تفہیم ممکن ہو سکے گی۔ اس طرح یہ نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک مشترکہ علمی و تہذیبی اثاثہ بن سکیں گے۔
حوالگی کی تقریب کے دوران امریکہ میں چین کے سفیر شیے فینگ نے کہا کہ یہ واپسی ایک "ثقافتی سنگ میل” ہے اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کے حوالے سے چین اور امریکہ کے درمیان تعاون کا ثبوت ہ جس سےعوامی رابطوں اور دوستی کو ایک نئی طاقت ملے گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ چین اور امریکہ نے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے شعبے میں "قابل ذکر پیش رفت” کی ہے۔ اب تک تقریباً 600 نوادرات کی چین کو واپسی کی جا چکی ہے جن میں صرف رواں برس کے آغاز سے اب تک 40 سے زائد نوادرات شامل ہیں۔
تقریب کے دوران اسمتھ سونین کے ایشیائی آرٹ میوزیم کے ڈائریکٹر چیز ایف رابنسن نے کہا کہ مخطوطات کی واپسی سوچ سمجھ کر کیا گیا ایک فیصلہ ہے ۔ اُنہوں نے اس فیصلے کو "باہمی فائدے اور رفاقت پر مبنی عالمی تعاون” کی ایک مثال قرار دیا ہے۔
"وو شینگ لینگ” اور "گونگ شو ژان” کی واپسی قیمتی گمشدہ ثقافتی نوادرات کی فعال بازیابی کی ایک کامیاب مثال ہے۔ یہ چنگ ڈاؤ سفارشات میں بیان کردہ مکالمے اور تعاون کے بنیادی جذبے کے عملی اطلاق کا بھی ایک نمونہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ کسی نادر ورثے کی اصل ملکیت اور منتقلی کی تاریخ پر تحقیقی کام بیرون ملک موجود چینی ثقافتی ورثے کو کامیابی کے ساتھ واپس لانے میں کیسے معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ مخطوطات جولائی 2025 میں پہلی بار عوامی نمائش کے لئےنیشنل میوزیم آف چائنہ میں پیش کئے جائیں گے۔ یہ نمائش چین کے واپس لائے گئے ثقافتی نوادرات پر مبنی ہو گی۔
چین کے قومی ادارہ برائے ثقافتی ورثہ کا کہنا ہے کہ وہ ’زیدان کو‘ ریشمی مخطوطات کی تیسری جلد "سی شی لینگ” کی جلد واپسی کے لئے بھی کام جاری رکھے گا۔
واشنگٹن ڈی سی، امریکہ سے شِنہوا نیوز ایجنسی کے نمائندوں کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link