صدر کسان اتحاد خالد کھوکھر نے کہا ہے کہ کاشتکاروں کا زندہ رہنا مشکل کردیا گیا، حکومت سے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں ہمیں جینے کا حق دو، حکومت کاشتکاروں کا گلا گھوٹ رہی ہے، ریاست نے کسانوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک رواں رکھا ہوا ہے، زرعی انکم ٹیکس 15 سے 45 فیصد تک ہے، حکومت پہلے ہمارے کاروبارکو منافع بخش بنائے اس کے بعد زرعی انکم ٹیکس لے۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خالد کھوکھر نے کہا کہ پاکستان کی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے، آج زراعت زبوں حالی کا شکار ہے، وفاقی و صوبائی بجٹ میں کسانوں سے صرف جھوٹے وعدے کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈی اے پی کھاد 4 ہزار300 روپے کی ملتی ہے، کیاحکمرانوں کو ووٹ امریکی کاشتکاروں نے دیے تھے یا پاکستانیوں نے؟۔خالد کھوکھر نے کہا کہ اس سال کپاس کی پیداوار میں 7 لاکھ ایکٹر کمی آئے ہے، حکومت ہمیں جدید ٹیکنالوجی اور جائز معاوضے دے کر تو دیکھے، ملک کو معاشی میدان میں ترقی کی راہ پر گامزن کر دیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس قوت ارادی نہیں ہے، جو موسم اور وسائل پاکستان کے پاس ہیں کسی اور کے پاس نہیں ہیں، جب کوئی سبزی ایک روپے پر آجاتی ہے تو کاشتکار کو نقصان ہوتا ہے، کیا اس وقت کوئی اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر ریٹ چیک کرنے آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسان خوشحال ہوگا تو پاکستان میں خوشحالی آئے گی، ملک کا کاشتکار سراسر گھاٹے میں ہے، اگر حکومت سمجھتی ہے کہ کسان خوشحال ہے تو آکر بتائیں میں پریس کانفرنس کرنا چھوڑ دوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پیداوارمیں 34 نہیں بلکہ 64 فیصد تک کمی آچکی ہے، مکئی کی 15 اور چاول کی پیداوار میں 50 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔
خالد کھوکھر نے سوال اٹھایا کہ حکومت ایک طرف گندم کا ریٹ ڈی ریگولیٹ کرتی ہے تو دوسری جانب روٹی کا ریٹ کیوں طے کرتی ہے، کیا ہمارا پاکستان پر کوئی حق نہیں؟ صدر کسان اتحاد نے معاشی نقصان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ نقصان ہمارا ہی نہیں بلکہ پاکستان اور پاکستانی معیشت کا بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف ٹی وی پر کہتی تھیں کہ میرے کسانوں گندم اگا نقصان نہیں ہونے دوں گی، کیا کبھی وفاق اور پنجاب کے بجٹ میں تحقیق کا بجٹ آیا ہے؟۔
