پاکستان 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے تحت اب تک عالمی مالیاتی ادارے کی 51 اہم شرائط میں سے زیادہ تر پوری کرچکا ہے تاہم سالانہ ٹیکس ہدف اور بجٹ سرپلس سمیت کئی شرائط پوری نہ ہوسکیں۔
آئی ایم ایف کا جائزہ مشن دوسرے اقتصادی جائزے کیلئے 25 ستمبر کو پاکستان پہنچے گا۔ پاکستان سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے تحت اب تک عالمی ادارے کی اکاؤن اہم شرائط میں سے زیادہ تر پوری کرچکا ہے۔ پورے کئے گئے اہداف میں گیس ٹیرف کی ششماہی بنیاد پر ایڈجسمنٹ، ٹیکس چھوٹ کے خاتمے اور کفالت پروگرام کے تحت مستقین کو غیر مشروط رقوم کی منتقلی بھی شامل ہیں۔ ڈسکوز کی نجکاری کیلئے پالیسی ایکشن سمیت بعض شرائط پر کام جاری ہیں البتہ ایف بی آر کے سالانہ ٹیکس ہدف اور بجٹ سرپلس سمیت کئی شرائط پوری نہ ہوسکیں۔
آئی ایم ایف کی اجازت سے چینی کی سرکاری درآمد پرٹیکس چھوٹ دی گئی، آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ہی بجٹ 26-2025 پاس کیا گیا، بجٹ سے ہٹ کر اخراجات کی پارلیمنٹ سے منظوری کی شرط بھی پوری ہوگئی۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان فزسکل پیکٹ کی شرط پرعمل کیا جاچکا۔
ڈسکوز اور جینکوز کی نجکاری کیلئے پالیسی اقدامات پر کام جاری ہے، تک خصوصی اقتصادی زونز پر مراعات ختم کرنے کی شرط پر بھی عملدآمد ہوگیا، سرکاری اداروں میں حکومتی عمل دخل میں کمی کی شرط میں پیش رفت ہوئی ہے۔
زرعی آمدن پر ٹیکس وصولی کیلئے قانون سازی کی شرط پر تاخیر سے عمل ہوا، اسلام آباد، کراچی، لاہور میں کمپلائنس رسک منیجمنٹ سسٹم نافذ کیا گیا، پی ایس ڈی پی منصوبوں کیلئے بہتر پبلک انویسٹمنٹ منیجمنٹ پر جزوی عمل درآمد کیا گیا۔
اعلی سرکاری حکام کے اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق قانون سازی میں پیش رفت ہوئی ہے، کفالت پروگرام کے تحت مہنگائی تناسب سے غیر مشروط کیش ٹرانسفر کی شرط پوری ہوگئی۔ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ کے درمیان 1.25 فیصد ایوریج پریمئمم پر بھی عمل کیا گیا۔
دستاویزات کے مطابق گورننس اینڈ کرپشن اسیسمنٹ رپورٹ کی اشاعت سمیت بعض شرائط پوری نہ ہوسکیں، آئی ایم ایف نے پہلے جولائی اور پھر اگست 2025 کی ڈیڈ لائن مقرر کی تھی، گورننس اینڈ کرپشن اسیسمنٹ پر ایکشن پلان کی شرط نہ پوری ہونے کا امکان ہے۔
حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے برعکس چینی کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ دی، صوبائی حکومتیں 1.2 ٹریلین کیش سرپلس کا ہدف پورا کرنے میں ناکام رہیں، ایف بی آر گزشتہ سال 12.3 ٹریلین روپے کا ٹیکس ہدف بھی پورا نہ کرسکا۔
جولائی تا جون 25-2024 کے دوران 11.74 ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا، ایف بی آر تاجر دوست اسکیم کے تحت 50 ارب روپے ٹیکس جمع کرنے میں بھی ناکام رہا، حکومتی ملکیتی اداروں کے قوانین میں ترمیم کا ہدف بھی پورا نہ ہوسکا۔
